بلاگ مراسلات کو سبسکرائب کریں : || FeedBurner

Wednesday, August 18, 2010

الصحابہ کلھم عدول کے دلائل

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
اور اسی طرح ہم نے تمہیں امتِ وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ بن جائے۔
( البقرة:2 - آيت:143 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ
وسط سے مراد عدل ہے (یعنی متوازن اور افراط و تفریط کے درمیانی راہ چلنے والی امت)۔
صحیح بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء : آن لائن ربط

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح سے معلوم ہوا کہ ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ ثابت ہوا کہ یہ امتِ محمدیہ ، امتِ عادلہ ہے۔

اصحابِ رسول (رضی اللہ عنہم) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو بھی روایات بیان کی ہیں ، اہلِ علم نے ان تمام روایات کو کھنگالا اور پرکھا تو ایک بھی صحابی ایسا نہ ملا جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی جھوٹ بولا ہو !
حتیٰ کہ صحابہ کرام کے آخری دَور میں جب قدریہ ، شیعہ ، خوارج جیسے فرقوں کی بدعات کا دَور شروع ہوا تو کوئی ایک صحابی بھی ایسا نہ ملا جو ان اقوام میں شامل ہوا ہو اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ :
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت کے لیے ان کا انتخاب فرمایا اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رفاقتِ مبارکہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی پسند تھے۔
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔۔۔
" إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ "
اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
بحوالہ : مسند احمد ، جلد اول - آن لائن ربط

اس بات کا بھی ذکر بہت ضروری ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی عدالت سے ان کا معصوم ہونا ضروری نہیں ہے !
اگرچہ اہل سنت و الجماعت اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت کے قائل ہیں لیکن ہم انہیں معصوم نہیں سمجھتے کیونکہ وہ پھر بھی بشر ہیں۔
اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) بشر ہونے کے ناطے سے خطاکار ہیں۔ وہ غلطی بھی کرتے ہیں اور درستی بھی ، اگرچہ ان کی خطائیں ان کی نیکیوں کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں ۔۔۔ رضی اللہ عنہم !

امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وإن كان الصحابة رضى الله عنهم قد كفينا البحث عن أحوالهم لإجماع أهل الحق من المسلمين وهم أهل السنة والجماعة على أنهم كلهم عدول
مسلمانوں کے اہل حق گروہ یعنی اہل السنت و الجماعت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل تھے۔
مقدمہ الاستیعاب : آن لائن ربط

علاوہ ازیں ۔۔۔۔ امام عراقی ، امام جوینی ، امام ابن صلاح ، امام ابن کثیر وغیرہم رحمہم اللہ علیہم نے بھی اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ اصحابِ رسول سب کے سب عادل ہیں۔

امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
الله تعالى لهم المطلع على بواطنهم الى تعديل أحد من الخلق له فهو على هذه الصفة الا ان يثبت على أحد ارتكاب ما لا يحتمل الا قصد المعصية والخروج من باب التأويل فيحكم بسقوط العدالة وقد برأهم الله من ذلك ورفع اقدارهم عنه على انه لو لم يرد من الله عز وجل ورسوله فيهم شيء مما ذكرناه لاوجبت الحال التي كانوا عليها من الهجرة والجهاد والنصرة وبذل المهج والاموال وقتل الآباء والاولاد والمناصحة في الدين وقوة الإيمان واليقين القطع على عدالتهم والاعتقاد لنزاهتهم وانهم أفضل من جميع المعدلين والمزكين الذين يجيؤن من بعدهم ابد الآبدين
اگر اللہ عز و جل اور اس کے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان (رضی اللہ عنہم) کے متعلق کوئی چیز بھی ثابت نہ ہوتی تو بھی ۔۔۔
  • ان کی ہجرت و نصرت
  • جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ
  • دینِ حق کی خیر خواہی اور اس کی خاطر اپنی اولاد اور ماں باپ سے لڑائی کرنا
  • ان کی ایمانی قوت اور یقینِ قطعی جیسی خوبیاں
۔۔۔ اس بات کا اعتقاد رکھنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ہستیاں ، صاف ستھری اور عادل ہیں اور وہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر عادل ہیں جو ابد الاباد تک ان کے بعد آئیں گے۔
بحوالہ : الكفاية في علم الرواية ، باب ما جاء في تعديل الله ورسوله للصحابة : آن لائن لنک

:: 0 تبصرے ::

تبصرہ کیجئے

{ تبصرہ کرتے وقت تہذیب و شائستگی کو ملحوظ رکھئے۔ بلاگ مصنف متنازعہ تبصرہ کو حذف کرنے کا اختیار رکھتا ہے }