بلاگ مراسلات کو سبسکرائب کریں : || FeedBurner

Saturday, August 21, 2010

کردارِ صحابہ اور تاریخ نگاری

اگرچہ صحابہ کرام کے اختلافات نیک نیتی پر مبنی تھے اور ان کا مقصد اصلاحِ احوال تھا مگر منافقین نے اپنا دنیوی مقصد حاصل کرنے کے لیے ان اختلافات کو ایسے رنگ میں پیش کیا اور اپنی تائید میں ایسی ایسی روایات وضع کیں کہ صحابہ کرام کو کمینہ خصلت اور دنیا پرست قسم کے گھٹیا لوگوں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا۔
ان بہتان تراشیوں سے ہماری تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ اس لیے جو شخص بھی ان کتبِ تاریخ کو (جن کو اصلاً تاریخ نہیں مجموعۂ روایات کہنا چاہئے) آنکھیں بند کر کے مدار علیہ بنائے گا ، اُس کا ٹھوکر کھانا یقینی ہے اور دانستہ یا نادانستہ طور پر اس گورکھ دھندے میں الجھ کر رہ جائے گا اور کسی بھی فریق سے انصاف نہیں کر سکے گا۔

یہ قیاس غلط ہے کہ :
تاریخ نگاری کے لیے چھان بین کی ضرورت نہیں کیونکہ تاریخ کوئی حدیث نہیں کہ اس پر حرام و حلال کی بنیاد ہو۔

حالانکہ حقیقت اس کے قطعاً برعکس ہے !
تاریخ کا وہ حصہ جس کا تعلق صحابہ کرام کے اقوال و افعال سے ہے اُتنا ہی اہم ہے جتنی حدیث۔ کیونکہ اگر صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی شخصیت مجروح ہوتی ہے تو دین کی بنیاد بھی قائم نہیں رہتی۔ کیونکہ دین ہمیں انہی نفوسِ قدسیہ کے توسط سے ملا۔ اگرچہ دین کا اصل ماخذ قرآن حکیم محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی تحریف کا احتمال نہیں۔
لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل و کردار قرآن حکیم کی عملی تفسیر کرتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے مطالعے سے کسی صحابی کے متعلق اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ نفس پرست اور دنیا طلب تھا اور دنیوی مفاد کے لیے احکامِ شرعی کی پرواہ نہیں کرتا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی روایتِ حدیث کو قبول کیا جائے اور مدارِ عمل بنایا جائے؟

یہ مفروضہ ہی سرے سے غلط ہے کہ ایسے لوگ جو ذاتی اور دنیوی مفادات کو دینی احکام پر ترجیح دیتے ہوں ، روایتِ حدیث کے معاملے میں کوئی خطا نہیں کر سکتے۔ بلکہ اغلب یہ ہے کہ ایسے لوگ حدیث کو بھی مفاد پرستی کے لیے آلۂ کار بنائیں۔

ہم احادیث کو اسی صورت میں مدارِ عمل بنا سکتے ہیں جب ہمیں یہ یقین ہو کہ ان کے اولین راوی بہمہ وجوہ صادق و عادل تھے۔
یہ دو رنگی کسی طرح بھی قابل تسلیم نہیں ہو سکتی کہ بعض صحابہ دنیاوی معاملات میں تو غیر عادل اور خائن تھے ، مگر روایتِ حدیث میں صادق و امین تھے۔
اس لیے ضروری ہے کہ جس طرح روایتِ حدیث کے سلسلے میں چھان بین سے کام لیا گیا ہے ، اسی طرح تاریخ کی ان روایات کے متعلق بھی اسی طرح چھان بین سے کام لیا جائے جن کا تعلق صحابۂ کرام کے "مشاجرات" سے ہے تاکہ حقیقت نکھر کر کے سامنے آ سکے۔

مولانا مودودی صاحب (رحمۃ اللہ) کا یہ کہنا کہ :
اگر تاریخ کے معاملے میں بھی تحقیق کا وہی طریق اختیار کیا جائے جو احادیث کے سلسلے میں اختیار کیا گیا تھا تو ہماری تاریخ کا 90 فیصد حصہ دریا برد کرنا پڑے گا۔

اگر حقیقت یہی ہے کہ ہماری تاریخ کی نوّے فیصد روایات محض کذب و افسانہ ہیں تو ان کو دریا بُرد کر دینا کوئی بری بات نہیں !!
کیونکہ ۔۔۔ ع

ایں دفتر بےمعنی غرق مئے ناب اولیٰ


اقتباس از مضمون : جناب وارث سرہندی ۔ بحوالہ : خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت

:: 7 تبصرے ::

علمدار نے لکھا :

ماشا اللہ
باذوق بھائی ایک خوبصورت بلاگ شروع کرنے پر مبارک باد قبول فرمائیں۔
جزاک اللہ

جاویداقبال نے لکھا :

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جزاک اللہ خیر بھائی، اللہ تعالی آپ کےعلم میں اوراضافہ دے۔ آ‏مین ثم آمین

والسلام
جاویداقبال

باذوق نے لکھا :

@ علمدار : بہت شکریہ بھائی۔

@ جاوید اقبال : وعلیکم السلام بھائی۔ دعا کیلئے بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں میں محبت و عظمتِ صحابہ کے نقوش کو جاگزین کر دے اور ان کے اعمالِ صالحہ سے فیضیاب ہونے کے مواقع نصیب فرمائے، آمین۔

Unknown نے لکھا :

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماشاء اللہ بھت ہی اچھی کوشش ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو کامیاب کرے ۔آمین

درویش خُراسانی نے لکھا :

آپ کی باتیں بہت مفید معلوم ہوئیں ۔ آج کل کا نوجوان طبقہ صرف تاریخ پڑھ کر صحابہ کرام کے بارے میں شکوک وشبھات کا شکار ہوجاتا ہے۔

حالانکہ تاریخ کے پڑھنے سے پہلے اصول تاریخ کو پڑھنا لازمی اور ضروری ہے۔ تاکہ آدمی کو یہ معلوم ہوسکے کہ تاریخ کا مقام عقیدے کے نزد کیا ہے ، نیز عقیدہ قران و حدیث سے بنتا ہے نا کہ تاریخ سے۔

http://darveshkhurasani.wordpress.com/ss1/352-2/

ارتقاء حیات نے لکھا :

اللہ جزاء دے اور زور قلم میں اضافہ فرمائے

آمین

تبصرہ کیجئے

{ تبصرہ کرتے وقت تہذیب و شائستگی کو ملحوظ رکھئے۔ بلاگ مصنف متنازعہ تبصرہ کو حذف کرنے کا اختیار رکھتا ہے }