بلاگ مراسلات کو سبسکرائب کریں : || FeedBurner

Monday, August 9, 2010

تعارف اہل البیت رضی اللہ عنہم

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلاَةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالٰی یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔
( الأحزاب:33 - آيت:32-33 )

تمام مفسرینِ اہل سنت نے اتفاق کیا ہے کہ ان آیات میں اہل البیت سے مراد سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) ہیں کیونکہ آیاتِ کریمہ کا سیاق و سباق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں (رضی اللہ عنہن) ہی کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ آیت میں "اہل البیت" کا ذکر کرنے سے پہلے بھی بار بار "اے پیغمبر کی بیویو" کہہ کر ان کو مخاطب کیا گیا ہے۔

جب اہل البیت (یعنی : گھر والے) کہا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس سے "بیوی" مراد لی جاتی ہے جس کی سب سے بڑی دلیل درج ذیل آیات ہیں :

وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَقَ يَعْقُوب
قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيب
قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيد
اس کی بیوی کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔
وہ کہنے لگی ہائے میری کم بختی! میرے ہاں اولاد کیسے ہوسکتی ہے میں خود بڑھیا اور یہ میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں یہ یقیناً بڑی عجیب بات ہے ۔
فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگوں اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں بیشک اللہ حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے۔
( هود:11 - آيت:71-73 )

بالا آیات میں اہل البیت سے مراد یقینی طور پر سب سے پہلے سارہ (علیہ السلام) ہیں کیونکہ آیات میں انہی کو خطاب کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح ایک اور آیتِ کریمہ ہے :
فَلَمَّا قَضَى مُوسَىالأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ
تو جب موسیٰ نے مدت پوری کر لی تو اپنے اہل کو لے کر چلے
( القصص:28 - آيت:29 )

اس آیت میں بیوی کو "اہل" کہا گیا ہے کیونکہ بیوی کے سوا کوئی دوسرا ساتھ نہ تھا ، جس سے معلوم ہوا کہ بیوی "اہل" ہے۔

حدیث الکساء (چادر والی حدیث) کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل اہل خانہ ، "اہل البیت" میں شامل ہیں :
سیدنا حسن و حسین و علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم !

حدیث الکساء کے الفاظ ہیں :
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ۔۔۔۔
خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً ، وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، فَأَدْخَلَهُ ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ، ثُمَّ قَالَ :
" إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " .
ایک صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ بالوں کی بنی ہوئی نقش و نگار والی چادر اوڑھے نکلے تو حسن (رضی اللہ عنہ) آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کو اپنی چادر میں لے لیا۔ پھر حسین (رضی اللہ عنہ) آئے ، وہ بھی حسن کے ساتھ چادر میں آ گئے ، پھر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) آئیں تو ان کو بھی اپنی چادر میں لے لیا ، پھر علی (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے تو ان کو بھی اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا : اے اہل البیت ! اللہ کی یہ چاہت ہے کہ تم سے گندگی دور کرے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ - آن لائن ربط

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کہ :
قَالَ : نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ ، قَالَ : وَمَنْ هُمْ ؟ قَالَ : هُمْ آلُ عَلِيٍّ ، وَآلُ عَقِيلٍ ، وَآلُ جَعْفَرٍ ، وَآلُ عَبَّاسٍ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل البیت میں داخل ہیں ؟
تو انہوں نے جواب میں فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل البیت میں داخل ہیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اہل البیت وہ بھی ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ ہیں : آل علی ، آل جعفر ، آل عقیل ، آل عباس۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ - آن لائن ربط

اور ۔۔۔
آل حارث بن عبدالمطلب ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل قول کی رو سے اہل البیت میں داخل ہیں :
إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ
کہ بے شک صدقہ آل محمد کے لائق نہیں ہے۔ یہ تو لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے۔
صحیح مسلم ، کتاب الزکوٰۃ - آن لائن ربط

اہل البیت رضی اللہ عنہم چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تعلق رکھتے ہیں ، لہذا ہر مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھے۔ ان کے بارے میں نیکی کے جذبات رکھے جائیں۔ ان سے بغض و عناد قطعاً حرام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل البیت کے بارے میں خاص نصیحتیں فرمایا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت سے نہایت ہی واضح فرمان ہے کہ :
ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ ، أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ، فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ، ثُمَّ قَالَ : وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي
وفى رواية كتاب الله عز وجل. هو حبل الله. من اتبعه كان على الهدى. ومن تركه كان على ضلالة
لوگو! آگاہ رہو ، یہ حقیقت ہے کہ میں ایک بشر ہوں ، ہو سکتا ہے کہ جلد ہی میرے رب کا فرستادہ میرے پاس آئے اور میں اس کو قبول کر لوں۔ اور میں تم میں دو چیزیں چھوڑنے والا ہوں۔ ان میں پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے ، اس میں ہدایت اور نور ہے۔ تم اللہ کی کتاب کو تھام لو اور اس پر مضبوطی سے عمل کرو۔
چنانچہ آپ نے کتاب اللہ کی حفاظت پر زور دیا اور اس کی رغبت دلائی۔
پھر فرمایا : دوسری چیز میرے اہل البیت ہیں۔ میں اپنے اہل البیت کے بارے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ کتاب اللہ ، اللہ کی رسی ہے جو اس پر چلے گا وہ ہدایت پر رہے گا ، اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہو جائے گا۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ - آن لائن ربط

بالا حدیث سے اہل البیت کا مقام نہایت واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

:: 0 تبصرے ::

تبصرہ کیجئے

{ تبصرہ کرتے وقت تہذیب و شائستگی کو ملحوظ رکھئے۔ بلاگ مصنف متنازعہ تبصرہ کو حذف کرنے کا اختیار رکھتا ہے }