بلاگ مراسلات کو سبسکرائب کریں : || FeedBurner

Tuesday, August 17, 2010

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ

عبد الله بن عباس بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف
آپ کی کنیت ابن عباس اور آپ کا لقب حبر الامۃ ہے۔ آپ کو "ترجمان القرآن" بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی پیدائش ہجرتِ نبوی سے تین سال قبل کی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ (رضی اللہ عنہ) کی عمر چودہ یا پندرہ برس تھی۔

حضرت عبداللہ بن عباس امت مسلمہ کے بہترین افراد میں سے اور نامور فقیہہ و عالم تھے۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی فقاہت کے لیے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص دعا فرمائی تھی۔
چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء گئے تو میں نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو فرمایا : یہ کس نے رکھا ہے ؟
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :
اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ
اے اللہ ! اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرما۔
صحیح بخاری ، کتاب الوضوء : آن لائن ربط

ونیز آپ رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں ۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینے سے چمٹاتے ہوئے یہ دعا فرمائی :
اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ وَتَأْوِيلَ الْكِتَابِ
یا اللہ ! اسے دین کی حکمت اور کتاب اللہ کا علم عطا فرما۔
سنن ابن ماجہ ، فضائل اصحاب الرسول : آن لائن ربط

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو علم و حکمت سے منور فرما دیا تھا۔ اسی سبب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کو بڑے بڑے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے ساتھ اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے اور مشکل مسائل میں ان سے رائے لیا کرتے تھے اور ان کی رائے کو اہمیت بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ سورۃ "النصر (110)" کے متعلق ان کی رائے کو قبول کیا گیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری بھی یہی رائے ہے۔

کئی برحق وجوہات کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "امام المفسرین" بھی کہا جاتا ہے۔ تفسیر القرآن کے معاملے میں سب سے زیادہ روایات آپ ہی سے مروی ہیں۔ البتہ ان سے جو روایات مروی ہیں ، ان کا ایک بڑا حصہ ضعیف بھی ہے لہذا اُن کی روایات سے استفادہ کی خاطر انہیں اصولِ حدیث کی شرائط پر جانچنا بہت ضروری ہے۔
زبانِ عربی کی ایک تفسیرِ قرآن " تنویر المقباس فی تفسير ابن عباس" کو آج کل عموماً "تفسیر ابن عباس" کہا اور سمجھا جاتا ہے ، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب ۔۔۔
محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس
کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" قرار دیا ہے لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ اپنی معروف کتاب "الاتقان" ، جلد دوم ، صفحہ نمبر 189 پر لکھتے ہیں ‫:
محمد بن مروان اگر اس سند (عن کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس) سے روایت کرے تو یہ پوری سند "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" کہلاتی ہے۔

اسی طرح ۔۔۔
امام ابو حاتم رحمۃ اللہ اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" ، جلد اول ، صفحہ 36 پر لکھتے ہیں ‫:
سفیان ثوری رحمۃ اللہ نے کہا کہ محمد بن السائب الکلبی اگر اس سند عن ابی صالح عن ابن عباس سے روایت کرے تو حدیث نہیں لی جائے گی کہ یہ سند جھوٹی ہے۔

آخری عمر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی بینائی ختم ہو گئی تھی اور آپ 71 سال کی عمر پا کر طائف میں سن 68 ھجری میں فوت ہوئے۔ آپ سے صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت نے حدیث روایت کی ہے۔

:: 0 تبصرے ::

تبصرہ کیجئے

{ تبصرہ کرتے وقت تہذیب و شائستگی کو ملحوظ رکھئے۔ بلاگ مصنف متنازعہ تبصرہ کو حذف کرنے کا اختیار رکھتا ہے }