بلاگ مراسلات کو سبسکرائب کریں : || FeedBurner

Tuesday, August 10, 2010

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل

جب "صحابی" کہہ دیا تو تمام القاب بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
تمام اوصافِ حسنہ سے متصف حضرات مل کر بھی "صحابی" کے درجہ اور مرتبہ کو پہنچ نہیں پا سکتے۔
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے بعد فضیلت اور علو مرتبت کے اعتبار سے صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) ہی کا درجہ و مرتبہ ہے۔
تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ :
الصحابة كلهم عدول (تمام صحابہ کرام عادل ہیں) !!

فرمانِ الٰہی ہے :
قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلاَمٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى
آپ کہہ دیجئے ! تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اس کے بندوں پر سلام ہے جنہیں اس نے چُن لیا۔
( النمل:27 - آيت:59 )

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے منتخب فرمایا۔
بحوالہ : تفسیر طبری - آن لائن ربط

ابن جریر طبری رحمۃ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وہ بندے جنہیں اللہ تعالیٰ نے چن لیا ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی کے لیے منتخب فرمایا اور انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھی اور وزیر بنایا۔
بحوالہ : تفسیر طبری - آن لائن ربط

سورۃ الفتح کی آیت:29 میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں :
1 : وہ کافروں پر سخت ہیں
2 : آپس میں رحم دل ہیں
3 : رکوع و سجود کی حالت میں رہتے ہیں
4 : اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طالب رہتے ہیں
5 : سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر ایک نشان نمایاں ہے
6 : ان کے شرف و فضل کے تذکرے پہلی آسمانی کتب میں بھی موجود تھے
7 : ان کی مثال اس کھیتی کے مانند ہے جو پہلے کمزور اور پھر آہستہ آہستہ قوی ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کمزور تھے ، پھر طاقت ور ہو گئے اور ان کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا جس سے کافروں کو چڑ تھی اور وہ غیض و غضب میں مبتلا ہو جاتے تھے۔

بالا صفات کے حامل اور ایمان اور عملِ صالح کے مجسم صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔

عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
" إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ "
اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
بحوالہ : مسند احمد ، جلد اول - آن لائن ربط

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
" مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ ، أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ ، أَبَّرَهَا قُلُوبًا ، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا ، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا ، قَوْمٌ اخْتَارَهُمُ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَقْلِ دِينِهِ ، فَتَشَبَّهُوا بِأَخْلاقِهِمْ وَطَرَائِقِهِمْ فَهُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ ، ... "
اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی ص کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر گامزن تھے۔
بحوالہ : حلية الأولياء لأبي نعيم - آن لائن ربط

:: 0 تبصرے ::

تبصرہ کیجئے

{ تبصرہ کرتے وقت تہذیب و شائستگی کو ملحوظ رکھئے۔ بلاگ مصنف متنازعہ تبصرہ کو حذف کرنے کا اختیار رکھتا ہے }