tag:blogger.com,1999:blog-69128533879189696742024-03-20T06:59:13.030+03:00الصحابة كلهم عدولتمام صحابہ [رضوان اللہ عنہم اجمعین] عادل ہیں - ( اجماع اہل سنت و الجماعت )باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.comBlogger28125tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-77886756237685456752011-06-04T16:51:00.001+03:002011-06-04T16:52:19.659+03:00حیاۃ الصحابہ :: سیرت صحابہ پر ایک اہم کتابحضرات صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) دین کی بنیاد ہیں ، دین کے اول پھیلانے والے ہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا۔ یہ وہ مبارک جماعت ہے کہ جس کو اللہ جل شانہ نے اپنے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مصاحبت کے لیے چنا اور یہ جماعت اس بات کی مستحق ہے کہ اسے نمونہ بنا کر اس کی اتباع کی جائے۔<a name='more'></a><br />
<br />
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی سیرت اور تاریخ اس قوت ایمانی اور جوش اسلامی کے طاقت ور ترین سرچشموں میں سے ہے جس کو امت مسلمہ نے دل کی انگیٹھیوں کو سلگانے اور دعوت ایمان کے شعلہ کو تیز تر کرنے میں استعمال کیا ہے جو مادیت کی تیز و تند آندھیوں میں بار بار سرد ہو جاتی ہیں۔<br />
<br />
مولانا ابو الحسن علی ندوی (رحمۃ اللہ) لکھتے ہیں کہ :<br />
<blockquote>تاریخ اسلام کی کتابیں ایسے قصے اور واقعات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے لیے حیات نو کا پیغام اور تجدید کا سامان رکھنے کے ساتھ ساتھ جوش ایمانی کو بیدار کرنے اور حمیت اسلامی کو مہمیز کرتے ہیں۔ لیکن ۔۔۔۔<br />
مسلمانوں پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب وہ اس تاریخ سے بیگانہ ہو کر اسے فراموش کر بیٹھے اور اہل وعظ و ارشاد اور اہل قلم و مصنفین نے اپنی تمام تر توجہ اولیاء متاخرین کے واقعات اور ارباب زہد و مشیخت کی حکایات بیان کرنے میں صرف کر دی اور اس دور کی ساری کتب انہی واقعات سے بھر گئیں اور سارا علمی سرمایہ صوفیائے کرام کے احوال و کرامات کی نذر ہو گیا۔<br />
<br />
مشہور داعی الی اللہ مصلح کبیر مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 1363ھ) نے اصلاح و تربیت کے میدان میں صحابہ کرام کے واقعات و حالات کی اہمیت ، تاثیر ، افادیت اور قدر و قیمت کا اندازہ کیا اور پوری ہمت و بلند حوصلگی کے ساتھ اس کے مطالعے میں منہمک ہو گئے۔ پھر انہوں نے چاہا کہ ان واقعات کی نشر و اشاعت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ زندگی نے وفا نہ کی تو یہ ذمہ داری ان کے فرزند مولانا محمد یوسف صاحب کے سر آئی جنہیں سیرتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور حالات صحابہ سے شغف بھی ورثہ میں ملا تھا۔<br />
<br />
اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے ، دعوت کی عزت و فضیلت کے ماسوا ، صحابہ کرام کے حالات و واقعات پر مشتمل ایک بلند پایہ کتاب کی تالیف کا شرف بالآخر مولانا محمد یوسف کاندھلوی کو ملا۔ انہوں نے تین ضخیم جلدوں میں صحابہ کرام کے حالات جمع کئے اور سیرت و تاریخ اور طبقات کی کتابوں میں جو مواد منتشر تھا ، اس کو یکجا کر دیا۔ اس طرح ایک ایسا دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) تیار ہو گیا ہے جو اس زمانے کی تصویر کو سامنے رکھ دیتا ہے جس میں صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی زندگی ، ان کے اخلاق و خصائص کے تمام پہلوؤں اور باریکیوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔</blockquote><br />
یہ کتاب اصلاً عربی زبان میں تحریر کی گئی تھی اور پہلی مرتبہ دائرۃ المعارف العثمانیہ (حیدرآباد دکن) کے عربی پریس سے طبع ہونے کے بعد اہل علم کے حلقوں میں قبول ہوئی پھر دمشق کے دار القلم میں بڑے اہتمام اور حسن طباعت کے ساتھ دوبارہ شائع ہوئی۔<br />
برصغیر ہند وپاک کے اردو داں طبقہ کی جانب سے جب اس قابل قدر کتاب کے اردو ترجمہ کا شدید تقاضا ہوا تو مولانا یوسف (رحمۃ اللہ) کے دیرینہ رفیق اور جانشین مولانا محمد انعام الحسن صاحب کی اجازت اور ایماء پر کتاب مذکور کے اردو ترجمہ کا آغاز ہوا۔ ترجمہ کی سعادت مدرسہ عربیہ (رائے ونڈ) کے استاذ مولوی محمد احسان الحق صاحب کے حصہ میں آئی جنہوں نے دینی اصطلاحات سے ناواقف عام سادہ مسلمان کی سطح کو سامنے رکھ کر عام فہم مگر موثر و دلآویز انداز میں اس معروف و مقبول کتاب کے اردو ترجمہ کو بحسن و خوبی تکمیل تک پہنچایا۔<br />
<br />
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے ذریعے امت مسلمہ کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے اور اس کتاب کی اشاعت میں کسی بھی طریقہ سے حصہ لینے والے اشخاص کو اجر و ثواب سے نوازے ، آمین۔<br />
<br />
اس کتاب (اردو ترجمہ) کی تینوں جلدیں پی۔ڈی۔ایف فائلوں کی شکل میں ذیل کے روابط سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔<br />
<br />
<br />
نام کتاب : حیاۃ الصحابہ<br />
مصنف : محمد یوسف کاندھلوی (رحمۃ اللہ)<br />
اردو ترجمہ : مولانا محمد احسان الحق<br />
ناشر : دارالاشاعت ، اردو بازار ، کراچی ، پاکستان۔<br />
<br />
جلد - 1<br />
پی-ڈی-ایف صفحات : 648<br />
فائل سائز : 33 میگابائٹس<br />
<a href="http://www.archive.org/download/HayatUsSahaba-urdu-ByShaykhMuhammadYusufKandhelvir.a/HayatUsSahabaurdu-part1BySheikhMuhammadYusufKandhelvir.a.pdf">ڈاؤن لوڈ لنک</a><br />
<br />
جلد - 2<br />
پی-ڈی-ایف صفحات : 792<br />
فائل سائز : 41 میگابائٹس<br />
<a href="http://www.archive.org/download/HayatUsSahaba-urdu-ByShaykhMuhammadYusufKandhelvir.a/HayatUsSahabaurdu-part2BySheikhMuhammadYusufKandhelvir.a.pdf">ڈاؤن لوڈ لنک</a><br />
<br />
جلد - 3<br />
پی-ڈی-ایف صفحات : 718<br />
فائل سائز : 45 میگابائٹس<br />
<a href="http://www.archive.org/download/HayatUsSahaba-urdu-ByShaykhMuhammadYusufKandhelvir.a/HayatUsSahabaurdu-part3BySheikhMuhammadYusufKandhelvir.a.pdf">ڈاؤن لوڈ لنک</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-6743413602633997872010-08-31T16:44:00.008+03:002010-08-31T18:40:06.481+03:00صحابہ کے مراتب و درجاتانبیاء کرام علیہم السلام کے بعد فضیلت و مراتب کے لحاظ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ہی کا درجہ و مرتبہ ہے۔<br />
اور تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) عادل ہیں یعنی "الصحابہ کلھم عدول" !<br />
صفتِ عدالت میں یکساں ہونے کے باوجود صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے مابین فرقِ مراتب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ <a name='more'></a>اس کی پوری تفصیل عقائد اور علم الکلام کی کتابوں میں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔<br />
<br />
عام مسلمانوں کو مختصراً اتنا ضرور علم ہونا چاہئے کہ ۔۔۔<br />
<ul><li>فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں سے افضل ہیں</li>
<li>فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والوں میں وہ صحابہ افضل ہیں جو صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے</li>
<li>صلح حدیبیہ کے شرکاء میں سے وہ صحابہ افضل ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے</li>
<li>غزوہ بدر والوں میں سے افضل حضراتِ عشرہ مبشرہ ہیں</li>
<li>اور عشرہ مبشرہ میں سے خلفائے راشدین افضل ہیں</li>
<li>اور خلفائے راشدین میں سے افضل شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے۔</li>
</ul><br />
امتِ مسلمہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا درجہ و مرتبہ اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی اعلیٰ ترین فرد کی بڑی سے بڑی نیکی صحابی کی ادنیٰ ترین نیکی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔<br />
صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے کہ ۔۔۔<br />
حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) میں کچھ جھگڑا ہوا تو خالد بن ولید نے عبدالرحمٰن بن عوف کو کچھ برا کہا۔<br />
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تب فرمایا : <br />
<div style="color: #274e13;">لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ</div>میرے اصحاب میں سے کسی کو برا مت کہو ، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے (خرچ کردہ) ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم</span> ، <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&pid=41773&hid=4618">آن لان ربط</a><br />
<br />
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی صحابی ہیں۔ اور ان کا درجہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا :<br />
<div style="color: #274e13;">سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ</div>اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری</span> ، <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=3498&pid=367757">آن لان ربط</a><br />
<br />
"اللہ کی تلوار" جیسا عظیم الشان لقب ، سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانِ اقدس سے حضرت خالد (رضی اللہ عنہ) کو ملا ہے۔ اس کے باوجود ۔۔۔ اپنی تمام تر خدمات کے باوصف حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) ، عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کو سخت سست کہنے سے خبردار فرمایا۔<br />
<br />
تو سوچا جانا چاہئے کہ کسی غیر صحابی کا صحابی کو سب و شتم کرنا یا ان کے بارے میں ناگفتنی باتیں کرنا کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ اور نازیبا باتیں کرنے والے کو صحابی کے درجہ و مرتبہ تک کیوں کر رسائی حاصل ہو سکتی ہے؟؟<br />
<br />
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
<div style="color: blue;">لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ</div>حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی ایک گھڑی تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔<br />
<span style="color: purple;">ابن ماجہ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=173&pid=42235&hid=158">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اسی طرح حضرت سعید بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
<div style="color: blue;">لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ .</div>کسی صحابی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنا ، جس میں اس کا چہرہ خاک آلود ہو گیا ہو ، تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے افضل ہے اگرچہ عمرِ نوح بھی دے دی جائے۔<br />
<span style="color: purple;">ابوداؤد</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=184&pid=439556&hid=4034">آن لائن ربط</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-25719763731976654782010-08-21T20:34:00.004+03:002010-08-21T21:27:00.494+03:00کردارِ صحابہ اور تاریخ نگاریاگرچہ صحابہ کرام کے اختلافات نیک نیتی پر مبنی تھے اور ان کا مقصد اصلاحِ احوال تھا مگر منافقین نے اپنا دنیوی مقصد حاصل کرنے کے لیے ان اختلافات کو ایسے رنگ میں پیش کیا اور اپنی تائید میں ایسی ایسی روایات وضع کیں کہ صحابہ کرام کو کمینہ خصلت اور دنیا پرست قسم کے گھٹیا لوگوں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا۔<br />
ان بہتان تراشیوں سے ہماری تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔<a name='more'></a> اس لیے جو شخص بھی ان کتبِ تاریخ کو (جن کو اصلاً تاریخ نہیں مجموعۂ روایات کہنا چاہئے) آنکھیں بند کر کے مدار علیہ بنائے گا ، اُس کا ٹھوکر کھانا یقینی ہے اور دانستہ یا نادانستہ طور پر اس گورکھ دھندے میں الجھ کر رہ جائے گا اور کسی بھی فریق سے انصاف نہیں کر سکے گا۔<br />
<br />
یہ قیاس غلط ہے کہ :<br />
تاریخ نگاری کے لیے چھان بین کی ضرورت نہیں کیونکہ تاریخ کوئی حدیث نہیں کہ اس پر حرام و حلال کی بنیاد ہو۔<br />
<br />
حالانکہ حقیقت اس کے قطعاً برعکس ہے !<br />
تاریخ کا وہ حصہ جس کا تعلق صحابہ کرام کے اقوال و افعال سے ہے اُتنا ہی اہم ہے جتنی حدیث۔ کیونکہ اگر صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی شخصیت مجروح ہوتی ہے تو دین کی بنیاد بھی قائم نہیں رہتی۔ کیونکہ دین ہمیں انہی نفوسِ قدسیہ کے توسط سے ملا۔ اگرچہ دین کا اصل ماخذ قرآن حکیم محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی تحریف کا احتمال نہیں۔<br />
لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل و کردار قرآن حکیم کی عملی تفسیر کرتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ کے مطالعے سے کسی صحابی کے متعلق اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ نفس پرست اور دنیا طلب تھا اور دنیوی مفاد کے لیے احکامِ شرعی کی پرواہ نہیں کرتا تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی روایتِ حدیث کو قبول کیا جائے اور مدارِ عمل بنایا جائے؟<br />
<br />
یہ مفروضہ ہی سرے سے غلط ہے کہ ایسے لوگ جو ذاتی اور دنیوی مفادات کو دینی احکام پر ترجیح دیتے ہوں ، روایتِ حدیث کے معاملے میں کوئی خطا نہیں کر سکتے۔ بلکہ اغلب یہ ہے کہ ایسے لوگ حدیث کو بھی مفاد پرستی کے لیے آلۂ کار بنائیں۔<br />
<br />
ہم احادیث کو اسی صورت میں مدارِ عمل بنا سکتے ہیں جب ہمیں یہ یقین ہو کہ ان کے اولین راوی بہمہ وجوہ صادق و عادل تھے۔<br />
یہ دو رنگی کسی طرح بھی قابل تسلیم نہیں ہو سکتی کہ بعض صحابہ دنیاوی معاملات میں تو غیر عادل اور خائن تھے ، مگر روایتِ حدیث میں صادق و امین تھے۔<br />
اس لیے ضروری ہے کہ جس طرح روایتِ حدیث کے سلسلے میں چھان بین سے کام لیا گیا ہے ، اسی طرح تاریخ کی ان روایات کے متعلق بھی اسی طرح چھان بین سے کام لیا جائے جن کا تعلق صحابۂ کرام کے "مشاجرات" سے ہے تاکہ حقیقت نکھر کر کے سامنے آ سکے۔<br />
<br />
مولانا مودودی صاحب (رحمۃ اللہ) کا یہ کہنا کہ :<br />
اگر تاریخ کے معاملے میں بھی تحقیق کا وہی طریق اختیار کیا جائے جو احادیث کے سلسلے میں اختیار کیا گیا تھا تو ہماری تاریخ کا 90 فیصد حصہ دریا برد کرنا پڑے گا۔<br />
<br />
اگر حقیقت یہی ہے کہ ہماری تاریخ کی نوّے فیصد روایات محض کذب و افسانہ ہیں تو ان کو دریا بُرد کر دینا کوئی بری بات نہیں !!<br />
کیونکہ ۔۔۔ ع<br />
<br />
ایں دفتر بےمعنی غرق مئے ناب اولیٰ<br />
<br />
<br />
اقتباس از مضمون : <span style="color: purple;">جناب وارث سرہندی</span> ۔ بحوالہ : <span style="color: purple;">خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت</span>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com7tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-82085872387536760462010-08-19T19:33:00.011+03:002010-08-22T01:08:02.854+03:00حضرت حسن رضی اللہ عنہسیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمد تھی۔<br />
آپ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے ، اور <a href="http://assahaba.blogspot.com/2010/08/naujawan-jannation-k-sardaar.html">آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں</a>۔<br />
<br />
سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) کی پیدائش اکثر مورخین کے نزدیک ماہِ رمضان سن 3 ھجری ہے۔ <a name='more'></a><br />
فتح الباری میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : <span style="color: blue;">كان مولد الحسن في رمضان سنة ثلاث من الهجرة عند الأكثر</span><br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">فتح الباری</span> : <a href="http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=12&CID=351&SW=%E3%E6%E1%CF%20%C7%E1%CD%D3%E4#SR1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اہل بیت کے عظیم فرد ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بےپناہ محبت تھی۔<br />
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی :<br />
<div style="color: #274e13;">" اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ " .</div>اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت فرما۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367754&hid=3490">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اور مزید ایک فرمانِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) یوں ہے :<br />
<div style="color: #274e13;">اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ ، فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ</div>اے ہمارے پروردگار ! بلاشبہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ، اور جو لوگ اس سے محبت کریں تو بھی ان سے محبت فرما۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=4452&pid=41727">آن لائن ربط</a><br />
<br />
عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) کو اٹھائے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ , لَيْسَ شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ</div>یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ ہیں ، علی سے نہیں۔<br />
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر مسکرا رہے تھے۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367754&hid=3491">آن لائن ربط</a><br />
<br />
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ</div>سیدنا حسن بن علی سے زیادہ اور کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں تھا۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367754&hid=3493">آن لائن ربط</a><br />
<br />
حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے مزاج و افتاد طبع کے اعتبار سے نہایت صلح جو تھے لڑائی جھگڑوں کو طول دینے کے بجائے صلح و مفاہمت کی راہ اختیار کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اسی سبب جنگِ جمل کو ہونے سے روکنے کی انہوں نے کافی کوششیں کیں۔ مگر جب جنگ شروع ہو گئی اور مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونے لگے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اسی صلح جو صاحبزادے سے کہا :<br />
<div style="color: blue;">يا بني ليت اباك مات قبل هذا اليوم بعشرين عاماً</div>بیٹے ! کاش تیرا باپ اس دن سے 20 سال قبل مر گیا ہوتا۔<br />
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :<br />
<div style="color: blue;">يا ابت قد كنت انهاك عن هذا</div>اباجان ! میں تو آپ کو اس سے منع ہی کرتا رہا۔<br />
بحوالہ :<span style="color: purple;"> البدائیہ و النہائیہ</span> : <a href="http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=251&CID=116&SW=%C8%DA%D4%D1%ED%E4#SR1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :<br />
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوۂ افروز تھے اور سیدنا حسن بن علی ان کے پہلو میں ہیں۔ کبھی آپ لوگوں کی طرف رخ فرماتے اور کبھی سیدنا حسن کی طرف۔ اور آپ نے فرمایا :<br />
<div style="color: #274e13;">إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ</div>میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب الصلح</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=2519&pid=367334">آن لائن ربط</a><br />
<br />
چنانچہ تاریخ اسلام کے مستند واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہا نے عین میدانِ جنگ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے عظیم نانا (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عظیم پیشین گوئی کو سچ ثابت کر دکھایا۔<br />
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عظمت کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے جو کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خلافت سے دست بردار ہو گئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہا۔<br />
<br />
آپ نے سن 50 ھجری میں انتقال فرمایا۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-1182169513840940302010-08-18T22:33:00.007+03:002010-08-22T01:34:31.031+03:00الصحابہ کلھم عدول کے دلائلفرمانِ باری تعالیٰ ہے :<br />
<div style="color: red;">وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ <u>أُمَّةً وَسَطًا</u> لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا</div>اور اسی طرح ہم نے تمہیں <u>امتِ وسط</u> بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ بن جائے۔<br />
<div style="color: purple;">( البقرة:2 - آيت:143 )</div><br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: #274e13;">وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ</div><a name='more'></a>وسط سے مراد عدل ہے (یعنی متوازن اور افراط و تفریط کے درمیانی راہ چلنے والی امت)۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب احادیث الانبیاء</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=3113&pid=367659">آن لائن ربط</a><br />
<br />
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح سے معلوم ہوا کہ ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ ثابت ہوا کہ یہ امتِ محمدیہ ، امتِ عادلہ ہے۔<br />
<br />
اصحابِ رسول (رضی اللہ عنہم) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو بھی روایات بیان کی ہیں ، اہلِ علم نے ان تمام روایات کو کھنگالا اور پرکھا تو ایک بھی صحابی ایسا نہ ملا جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی جھوٹ بولا ہو !<br />
حتیٰ کہ صحابہ کرام کے آخری دَور میں جب قدریہ ، شیعہ ، خوارج جیسے فرقوں کی بدعات کا دَور شروع ہوا تو کوئی ایک صحابی بھی ایسا نہ ملا جو ان اقوام میں شامل ہوا ہو اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ :<br />
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت کے لیے ان کا انتخاب فرمایا اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رفاقتِ مبارکہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی پسند تھے۔<br />
جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
<div style="color: blue;">" إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ "</div>اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">مسند احمد ، جلد اول</span> - <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=121&hid=3468&pid=672352">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اس بات کا بھی ذکر بہت ضروری ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی عدالت سے ان کا معصوم ہونا ضروری نہیں ہے !<br />
اگرچہ اہل سنت و الجماعت اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت کے قائل ہیں لیکن ہم انہیں معصوم نہیں سمجھتے کیونکہ وہ پھر بھی بشر ہیں۔<br />
اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) بشر ہونے کے ناطے سے خطاکار ہیں۔ وہ غلطی بھی کرتے ہیں اور درستی بھی ، اگرچہ ان کی خطائیں ان کی نیکیوں کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں ۔۔۔ رضی اللہ عنہم !<br />
<br />
امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">وإن كان الصحابة رضى الله عنهم قد كفينا البحث عن أحوالهم لإجماع أهل الحق من المسلمين وهم أهل السنة والجماعة على أنهم كلهم عدول</div>مسلمانوں کے اہل حق گروہ یعنی اہل السنت و الجماعت نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل تھے۔<br />
<span style="color: purple;">مقدمہ الاستیعاب</span> : <a href="http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=170&CID=2&SW=%DF%E1%E5%E3-%DA%CF%E6%E1#SR1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
علاوہ ازیں ۔۔۔۔ امام عراقی ، امام جوینی ، امام ابن صلاح ، امام ابن کثیر وغیرہم رحمہم اللہ علیہم نے بھی اس بات پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ اصحابِ رسول سب کے سب عادل ہیں۔<br />
<br />
امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">الله تعالى لهم المطلع على بواطنهم الى تعديل أحد من الخلق له فهو على هذه الصفة الا ان يثبت على أحد ارتكاب ما لا يحتمل الا قصد المعصية والخروج من باب التأويل فيحكم بسقوط العدالة وقد برأهم الله من ذلك ورفع اقدارهم عنه على انه لو لم يرد من الله عز وجل ورسوله فيهم شيء مما ذكرناه لاوجبت الحال التي كانوا عليها من الهجرة والجهاد والنصرة وبذل المهج والاموال وقتل الآباء والاولاد والمناصحة في الدين وقوة الإيمان واليقين القطع على عدالتهم والاعتقاد لنزاهتهم وانهم أفضل من جميع المعدلين والمزكين الذين يجيؤن من بعدهم ابد الآبدين</div>اگر اللہ عز و جل اور اس کے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان (رضی اللہ عنہم) کے متعلق کوئی چیز بھی ثابت نہ ہوتی تو بھی ۔۔۔<br />
<ul><li>ان کی ہجرت و نصرت</li>
<li>جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ</li>
<li>دینِ حق کی خیر خواہی اور اس کی خاطر اپنی اولاد اور ماں باپ سے لڑائی کرنا</li>
<li>ان کی ایمانی قوت اور یقینِ قطعی جیسی خوبیاں</li>
</ul>۔۔۔ اس بات کا اعتقاد رکھنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ہستیاں ، صاف ستھری اور عادل ہیں اور وہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر عادل ہیں جو ابد الاباد تک ان کے بعد آئیں گے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">الكفاية في علم الرواية ، باب ما جاء في تعديل الله ورسوله للصحابة</span> : <a href="http://www.almeshkat.com/books/open.php?cat=9&book=897">آن لائن لنک</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-34817520962714376162010-08-17T19:18:00.005+03:002010-08-22T02:42:15.771+03:00حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہعبد الله بن عباس بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف<br />
آپ کی کنیت ابن عباس اور آپ کا لقب حبر الامۃ ہے۔ آپ کو "ترجمان القرآن" بھی کہا جاتا ہے۔ <a name='more'></a><br />
آپ کی پیدائش ہجرتِ نبوی سے تین سال قبل کی ہے۔<br />
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ (رضی اللہ عنہ) کی عمر چودہ یا پندرہ برس تھی۔<br />
<br />
حضرت عبداللہ بن عباس امت مسلمہ کے بہترین افراد میں سے اور نامور فقیہہ و عالم تھے۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی فقاہت کے لیے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص دعا فرمائی تھی۔<br />
چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔<br />
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء گئے تو میں نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو فرمایا : یہ کس نے رکھا ہے ؟<br />
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :<br />
<div style="color: #274e13;">اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ</div>اے اللہ ! اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرما۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب الوضوء</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=141&pid=365732">آن لائن ربط</a><br />
<br />
ونیز آپ رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینے سے چمٹاتے ہوئے یہ دعا فرمائی :<br />
<div style="color: #274e13;">اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ وَتَأْوِيلَ الْكِتَابِ</div>یا اللہ ! اسے دین کی حکمت اور کتاب اللہ کا علم عطا فرما۔<br />
<span style="color: purple;">سنن ابن ماجہ ، فضائل اصحاب الرسول</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=173&hid=162&pid=42237">آن لائن ربط</a><br />
<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو علم و حکمت سے منور فرما دیا تھا۔ اسی سبب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کو بڑے بڑے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے ساتھ اپنے قریب بٹھایا کرتے تھے اور مشکل مسائل میں ان سے رائے لیا کرتے تھے اور ان کی رائے کو اہمیت بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ سورۃ "النصر (110)" کے متعلق ان کی رائے کو قبول کیا گیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری بھی یہی رائے ہے۔<br />
<br />
کئی برحق وجوہات کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "امام المفسرین" بھی کہا جاتا ہے۔ تفسیر القرآن کے معاملے میں سب سے زیادہ روایات آپ ہی سے مروی ہیں۔ البتہ ان سے جو روایات مروی ہیں ، ان کا ایک بڑا حصہ ضعیف بھی ہے لہذا اُن کی روایات سے استفادہ کی خاطر انہیں اصولِ حدیث کی شرائط پر جانچنا بہت ضروری ہے۔<br />
زبانِ عربی کی ایک تفسیرِ قرآن " <span style="color: purple;">تنویر المقباس فی تفسير ابن عباس</span>" کو آج کل عموماً "تفسیر ابن عباس" کہا اور سمجھا جاتا ہے ، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب ۔۔۔<br />
<div style="color: blue;">محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس</div>کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" قرار دیا ہے لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔<br />
<br />
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ اپنی معروف کتاب "الاتقان" ، جلد دوم ، صفحہ نمبر 189 پر لکھتے ہیں :<br />
محمد بن مروان اگر اس سند (عن کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس) سے روایت کرے تو یہ پوری سند "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" کہلاتی ہے۔<br />
<br />
اسی طرح ۔۔۔<br />
امام ابو حاتم رحمۃ اللہ اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" ، جلد اول ، صفحہ 36 پر لکھتے ہیں :<br />
سفیان ثوری رحمۃ اللہ نے کہا کہ محمد بن السائب الکلبی اگر اس سند عن ابی صالح عن ابن عباس سے روایت کرے تو حدیث نہیں لی جائے گی کہ یہ سند جھوٹی ہے۔<br />
<br />
آخری عمر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی بینائی ختم ہو گئی تھی اور آپ 71 سال کی عمر پا کر طائف میں سن 68 ھجری میں فوت ہوئے۔ آپ سے صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت نے حدیث روایت کی ہے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-42712959439467628832010-08-16T19:24:00.003+03:002010-08-21T14:58:49.425+03:00امام بخاری اور انکے شیوخ کا عقیدہامام المحدثین و سید الفقہاء حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری (م : 256ھ) نے اپنا عقیدہ بیان کرنے سے پہلے فرمایا ہے کہ ۔۔۔۔<br />
<a name='more'></a><br />
میں نے ایک ہزار سے زائد شیوخ سے ملاقات کی ہے اور ایک ہی بار نہیں بلکہ کئی بار میں نے ان سے ملاقات کی۔ تمام بلاد اسلامیہ حجاز ، مکہ ، مدینہ ، کوفہ ، بصرہ ، واسط ، بغداد ، شام ، مصر ، جزیرہ میں 46 سال سے زیادہ عرصہ ان سے یکے بعد دیگرے ملتا رہا ہوں ، وہ سب اس عقیدہ پر متفق تھے کہ ۔۔۔۔ دین قول و عمل کا نام ہے ، قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں وغیرہ۔ اور انہی اعتقادی مسائل میں سے ایک یہ بھی کہ :<br />
<div style="color: blue;">وما رأيت فيهم أحدا يتناول أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم قالت عائشة أمروا أن يستغفروا لهم</div>( میں نے اپنے ان شیوخ میں سے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا کہتا ہو ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے : لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بخشش کی دعا کریں )۔<br />
<br />
امام بخاری نے یہ عقیدہ بیان کرتے ہوئے بلاد اسلامیہ کا ذکر کر کے وہاں کے اپنے بعض مشائخ کا نام بہ نام تذکرہ کیا ہے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">شرح أصول إعتقاد أهل السنة والجماعة - اللالكائى / ص: 173 اور 175</span> : <a href="http://www.almeshkat.net/books/open.php?cat=10&book=1014">آن لائن ربط</a><br />
<br />
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے <span style="color: purple;">مقدمہ فتح الباری "ھدی الساری" (ص:479)</span> میں ذکر کیا ہے کہ :<br />
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ کی تعداد 1080 (ألف وثمانين) ہے۔ ان تمام کے اسماء کا ذکر یقیناً طویل ہوگا۔ اس لیے اس ذکر کو نظرانداز کرتے ہوئے عرض ہے کہ ۔۔۔ یہ سب شیوخ کرام اس بات پر متفق تھے کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے بارے میں ہمیشہ بخشش کی دعا ہی کرنا چاہئے اور انہیں برا کہنے یا ان کی عزت و عصمت کو داغدار کرنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے !باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-78182170118429469582010-08-15T22:29:00.004+03:002010-08-22T01:33:40.006+03:00صحابہ سے حسنِ ظن - حنفی موقفحضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں ایک کتاب "الفقہ الاکبر" کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔<br />
اس کتاب میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">نتولاهم جميعا ولا نذكر الصحابة</div><a name='more'></a>ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں :<br />
<div style="color: blue;">ولا نذكر أحداً من اصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إلالخير</div>ہم سب صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے علاوہ نہیں کرتے۔<br />
ملا علی قاری رحمۃ اللہ اس کی شرح میں مزید لکھتے ہیں :<br />
یعنی گو کہ بعض صحابہ سے صورۃ شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بنا پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ، ان سے حسن ظن کا یہی تقاضا ہے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">شرح الفقہ الاکبر ، ص:71</span><br />
<br />
الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنی ساوی لکھتے ہیں :<br />
اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">شرح الفقہ الاکبر ، مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعۃ حیدرآباد دکن - 1948ء</span><br />
<br />
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ و عمل کے ترجمان امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب "العقیدہ الطحاویۃ" میں لکھا ہے :<br />
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں، ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور خیر کے علاوہ ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں۔ ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر و نفاق اور سرکشی ہے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">شرح العقیدہ الطحاویۃ ، ص:467</span>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-30513165885295243922010-08-14T11:05:00.005+03:002010-08-22T10:50:28.490+03:00فضائل صحابہ - قرآن کی روشنی میںحضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی جماعت اس پوری کائینات میں خوش نصیب جماعت ہے کہ جس کی تعلیم و تربیت اور تصفیہ و تزکیہ کے لیے سرورِ کائینات صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم و مزکی اور استاد و اتالیق مقرر کیا گیا۔<br />
اس انعامِ خداوندی پر وہ جتنا شکر کریں کم ہے ، جتنا فخر کریں بجا ہے۔<br />
<a name='more'></a><br />
<span class="Apple-style-span" style="color: red;">لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِين</span><br />
بخدا بہت بڑا احسان فرمایا اللہ نے مومنین پر کہ بھیجا ان میں ایک عظیم الشان رسول ، ان ہی میں سے ، وہ پڑھتا ہے ان کے سامنے اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور گہری دانائی ، بلاشبہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔<br />
<span class="Apple-style-span" style="color: purple;">( آل عمران:3 - آيت:164 )</span><br />
<br />
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی و عملی میراث اور آسمانی امانت چونکہ ان حضرات کے سپرد کی جا رہی تھی ، اس لیے ضروری تھا کہ یہ حضرات آئیندہ نسلوں کے لیے قابلِ اعتماد ہوں ، چنانچہ قرآن و حدیث میں جا بجا ان کے فضائل و مناقب بیان کئے گئے۔ چنانچہ ۔۔۔<br />
<br />
وحی خداوندی نے ان کی تعدیل فرمائی ، ان کا تزکیہ کیا ، ان کے اخلاص و للّٰہیت پر شہادت دی ، انہیں یہ رتبۂ بلند ملا کہ ان کو رسالتِ محمدیہ (علیٰ صاحبھا الف الف صلوٰۃ و سلام) کے عادل گواہوں کی حیثیت سے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔<br />
<br />
<span class="Apple-style-span" style="color: red;">مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ</span><br />
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں ، اور جو ایماندار آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں شفیق ہیں ، تم ان کو دیکھو گے رکوع ، سجدے میں۔ وہ چاہتے ہیں صرف اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی۔ ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدے کا نشان ہے۔<br />
<span class="Apple-style-span" style="color: purple;">( الفتح:48 - آيت:29 )</span><br />
<br />
گویا یہاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) <br />
"اللہ کے رسول ہیں" <br />
ایک دعویٰ ہے۔ اور اس کے ثبوت میں حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی سیرت و کردار کو پیش کیا گیا ہے کہ جسے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں شک و شبہ ہو ، اسے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں کی پاکیزہ زندگی کا ایک نظر مطالعہ کرنے کے بعد خود اپنے ضمیر سے یہ فیصلہ لینا چاہئے کہ جس کے رفقاء اتنے بلند سیرت اور پاکباز ہوں ، وہ خود صدق و راستی کے کتنے اونچے مقام پر فائز ہوں گے ؟ ع<br />
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا<br />
<br />
حضرات صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے ایمان کو "معیارِ حق" قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی بلکہ ان حضرات کے بارے میں لب کشائی کرنے والوں پر نفاق و سفاہت کی دائمی مہر ثبت کر دی گئی۔<br />
<br />
<span class="Apple-style-span" style="color: red;">وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُون</span><br />
اور جب ان (منافقوں) سے کہا جائے "تم بھی ایسا ایمان لاؤ جیسا دوسرے لوگ (صحابہ کرام) ایمان لائے ہیں" تو جواب میں کہتے ہیں "کیا ہم ان بیوقوفوں جیسا ایمان لائیں؟" سن رکھو یہ خود ہی بیوقوف ہیں مگر نہیں جانتے۔<br />
<span class="Apple-style-span" style="color: purple;">( البقرة:2 - آيت:13 )</span><br />
<br />
<br />
بحوالہ : <span class="Apple-style-span" style="color: purple;">مولانا محمد یوسف صاحب بنوری (مقدمہ : خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت )</span>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-59028496810875516242010-08-13T22:15:00.005+03:002010-08-22T12:54:18.904+03:00صحابہ کی آپس میں محبتقرآن حکیم کی آیات ، احادیثِ صحیحہ اور تاریخ میں ۔۔۔<br />
صحابہ کی آپس میں محبت ، الفت اور شفقت کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔<br />
<br />
فرمانِ الٰہی ہے : <br />
<a name='more'></a><br />
<div style="color: red;">مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ</div>کہ جو اس (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ہیں ، یہ تو کافروں پر سخت اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں<br />
<div style="color: purple;">( الفتح:48 - آيت:29 )</div><br />
یہ محبت و الفت خاص اللہ کا فضل ہے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم پر جو خالصتاً ان کو اللہ کے دین کی وجہ سے حاصل ہوا۔ اور اسی سبب وہ سب آپس میں انتہائی محبت کرنے والے اور ایک دوسرے پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسی احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :<br />
<div style="color: red;">وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا</div>تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔<br />
<div style="color: purple;">( آل عمران:3 - آيت:103 )</div><br />
یقیناً یہ دین ہی کی نعمت تھی کہ جس نے ان کو آپس میں شیر و شکر کر دیا تھا اور آپس میں ایک لڑی کے دانوں کی طرح اکٹھا کر دیا تھا اور ایک دوسرے کا ہمدرد اور مہربان بنا دیا تھا۔<br />
<br />
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں :<br />
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نیتیں خالص تھیں اور ان کے اعمال اچھے تھے، اس لیے جو بھی انہیں دیکھتا ان کی شخصیت اور سیرت سے ضرور متاثر ہوتا اور امام مالک رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ : انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شام کو فتح کیا تھا انہیں جب نصاریٰ دیکھتے تو ان کی زبان سے بےساختہ یہ الفاظ نکل جاتے کہ ۔۔۔ "اللہ کی قسم ! یہ لوگ ہمارے حواریوں سے بہتر ہیں"۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے کیونکہ اس امت کی عظمت تو پہلی کتابوں میں بیان کی گئی ہے اور اس امت کے سب سے افضل لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">تفسیر ابن کثیر : 4 / 261</span><br />
<br />
حدیث و تاریخ میں بیشمار ایسے واقعات درج ہیں جن سے صحابہ کی آپسی محبت ، ہمدردی ، خلوص ، غمخواری ، شفقت و رحمت اور ایک دوسرے کا لحاظ رکھنے والی خوبیوں کا پتا چلتا ہے۔<br />
<br />
جیسا کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں بچوں کا کھانا جو رکھا تھا تو وہ انہوں نے اپنے مہمان کو کھلا دیا اور خود اہل و عیال سمیت بھوکے رہ گئے اور یوں آیتِ ربانی نازل ہوئی کہ :<br />
<div style="color: red;">وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ</div>وہ اپنے بجائے دوسروں پر ایثار کرتے ہیں اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوں۔<br />
<div style="color: purple;">( الحشر:59 - آيت:9 )</div>بحوالہ : <span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب المناقب الانصار</span> : آن لائن ربط<br />
<br />
جیسا کہ ۔۔۔۔<br />
ضرار اسدی کی زبانی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف سن کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رو پڑے اور کہنے لگے :<br />
اللہ ابولحسن پر رحم کرے۔ اللہ کی قسم ! وہ ایسے ہی عظیم انسان تھے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">روضة النضرة : 2 / 212</span><br />
<br />
جیسا کہ ۔۔۔۔<br />
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے جسم پر موجود ایک کمبل کو بوسیدہ ہو جانے کے باوجود اتارنے اس لیے راضی نہیں تھے کہ وہ کمبل ، بقول ان کے ، ان کو ان کے خلیل عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے پہنایا تھا۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">مصنف ابن ابی شیبہ</span><br />
<br />
جیسا کہ ۔۔۔<br />
جنگ یرموک کا واقعہ ہے کہ ایک زخمی صحابی نے اپنے بجائے دوسرے ساتھی کو پانی پلانے کو کہا اور دوسرے نے تیسرے کو ، مگر جب تک پانی پلایا جاتا وہ صحابی دم توڑ گئے اور جب پلانے والا دیگر دونوں کو پانی پلانے پلٹا تو وہ دونوں بھی فوت ہو چکے تھے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">حیاتِ صحابہ کے درخشان پہلو</span>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-86184236532624203872010-08-12T16:29:00.005+03:002010-08-22T10:49:25.110+03:00تاریخ کی رو سے صحابہ پر حکم ۔۔۔؟مجلہ " ترجمان القرآن " لاہور کے شمارہ اپریل-1961ء کے صفحہ 52-53 پر مولانا عبدالحمید صدیقی مرحوم رقمطراز ہیں :<br />
<a name='more'></a><br />
<blockquote>امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جو بات کہتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ :<br />
شیعہ حضرات جن دلائل کی بنا پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر معترض ہوتے ہیں ، انہی اعتراضات کو اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر لوٹا دیا جائے تو ان سے پھر اُن کی ذات بھی مجروح ہوگی۔<br />
<br />
حقیقت یہ ہے کہ اختلافات کے اس پورے دور میں جو واقعات رونما ہوئے ، ان کی نوعیتیں اتنی پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہیں کہ انہیں محض تاریخ کی مدد سے سلجھایا نہیں جا سکتا !<br />
واقعات کا جب سلسلہ قائم ہوتا ہے تو اس وقت اس کے ساتھ ایک ایسا جذباتی ماحول بھی بن جاتا ہے جس سے ہم کسی معاملے کے متعلق بھی دو اور دو چار کی طرح فیصلہ نہیں کر سکتے۔<br />
لہذا ہم اس روش کو ہی صحیح نہیں سمجھتے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات کے بارے میں ہم محض تاریخ کی مدد سے کوئی حکم لگائیں !<br />
<br />
وہ حضرات جنہیں سرورِ کائینات صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے ، وہ محض تاریخی شخصیتیں نہیں جن پر بڑی بےتکلفی سے جرح و تعدیل کرتے رہیں۔<br />
قرآن مجید نے ان خوش نصیب ہستیوں کی تعریف کی ہے اس لیے ہمیں ان نفوسِ قدسیہ کے بارے میں غیر معمولی حد تک محتاط رہنا چاہئے اور کوئی لفظ اپنی زبان سے ایسا نہ نکالنا چاہئے جس سے سوءِ ادب کا پہلو نکلتا ہو۔</blockquote><br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت (حافظ صلاح الدین یوسف)</span>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-49448703439443254842010-08-11T10:11:00.003+03:002010-08-22T10:49:00.225+03:00فضائل امہات المومنین رضی اللہ عنہننبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) میں درج ذیل مبارک خواتین شامل ہیں :<br />
<a name='more'></a><ol><li>سیدہ خدیجۃ الکبریٰ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ سودہ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ حفصہ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ زینب بنتِ خزیمہ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ امّ سلمہ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ زینب بنتِ جحش (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ جویریہ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ صفیہ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ امّ حبیبہ (رضی اللہ عنہا)</li>
<li>سیدہ میمونہ (رضی اللہ عنہا)</li>
</ol><br />
یہ تمام عظیم المرتبت خواتین ، تمام مومنین کی مائیں ہیں۔<br />
ارشاد باری تعالیٰ ہے :<br />
<div style="color: red;">النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ </div>پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور ان کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔<br />
<div style="color: purple;">( الأحزاب:33 - آيت:6 )</div><br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویاں ناپاک افعال اور ناپاک اخلاق و کردار سے یکسر پاک ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے :<br />
<div style="color: red;">يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا</div><div style="color: red;">وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلاَةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا</div>اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔<br />
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالٰی یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔<br />
<div style="color: purple;">( الأحزاب:33 - آيت:32-33 )</div><br />
تمام مفسرینِ اہل سنت نے اتفاق کیا ہے کہ ان آیات میں اہل البیت سے مراد سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) ہیں کیونکہ آیاتِ کریمہ کا سیاق و سباق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں (رضی اللہ عنہن) ہی کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ آیت میں "اہل البیت" کا ذکر کرنے سے پہلے بھی بار بار "اے پیغمبر کی بیویو" کہہ کر ان کو مخاطب کیا گیا ہے۔<br />
<br />
جب اہل البیت (یعنی : گھر والے) کہا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس سے "بیوی" مراد لی جاتی ہے جس کی سب سے بڑی دلیل درج ذیل آیات ہیں :<br />
<br />
<div style="color: red;">وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَقَ يَعْقُوب</div><div style="color: red;">قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيب</div><div style="color: red;">قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيد</div>اس کی بیوی کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔<br />
وہ کہنے لگی ہائے میری کم بختی! میرے ہاں اولاد کیسے ہوسکتی ہے میں خود بڑھیا اور یہ میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں یہ یقیناً بڑی عجیب بات ہے ۔<br />
فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگوں اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں بیشک اللہ حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے۔<br />
<div style="color: purple;">( هود:11 - آيت:71-73 )</div><br />
بالا آیات میں اہل البیت سے مراد یقینی طور پر سب سے پہلے سارہ (علیہ السلام) ہیں کیونکہ آیات میں انہی کو خطاب کیا جا رہا ہے۔<br />
<br />
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ۔۔۔ عام عورتوں کی طرح نہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ بہتر اور افضل ہیں کیونکہ ۔۔۔۔<br />
1 : انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ان پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہے<br />
2 : انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آنے کی سعادت نصیب ہوئی<br />
<br />
فرمان الٰہی ہے :<br />
<div style="color: red;">يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء </div>اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو<br />
<div style="color: purple;">( الأحزاب:33 - آيت:32 )</div><br />
اللہ تعالیٰ نے ان مبارک ہستیوں کو دنیا میں امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بنایا اور آخرت میں بھی وہ سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی بیویاں ہوں گی اور انہی کے ساتھ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گی۔<br />
<br />
جو لوگ سچے ایمان والے ہیں وہ ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) کو اپنی حقیقی ماؤں ہی کی طرح سمجھتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے ان کا احترام کرتے ہیں ، نہ ان کیلئے کبھی کوئی برا خیال ذہن میں لاتے ہیں اور نہ ہی ان پر کسی کی زبان درازی کو برداشت کرتے ہیں۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-48283172731169295572010-08-10T23:46:00.005+03:002010-08-22T10:48:15.797+03:00صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائلجب "صحابی" کہہ دیا تو تمام القاب بےمعنی ہو جاتے ہیں۔<br />
تمام اوصافِ حسنہ سے متصف حضرات مل کر بھی "صحابی" کے درجہ اور مرتبہ کو پہنچ نہیں پا سکتے۔<br />
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے بعد فضیلت اور علو مرتبت کے اعتبار سے صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) ہی کا درجہ و مرتبہ ہے۔<br />
تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ :<br />
<span style="color: blue;">الصحابة كلهم عدول</span> (تمام صحابہ کرام عادل ہیں) !!<br />
<a name='more'></a><br />
فرمانِ الٰہی ہے :<br />
<div style="color: red;">قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلاَمٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى</div>آپ کہہ دیجئے ! تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اس کے بندوں پر سلام ہے جنہیں اس نے چُن لیا۔<br />
<div style="color: purple;">( النمل:27 - آيت:59 )</div><br />
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے منتخب فرمایا۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">تفسیر طبری</span> - <a href="http://altafsir.com/Tafasir.asp?tMadhNo=1&tTafsirNo=1&tSoraNo=27&tAyahNo=59&tDisplay=yes&UserProfile=0&LanguageId=1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
ابن جریر طبری رحمۃ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :<br />
وہ بندے جنہیں اللہ تعالیٰ نے چن لیا ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی کے لیے منتخب فرمایا اور انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھی اور وزیر بنایا۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">تفسیر طبری</span> - <a href="http://altafsir.com/Tafasir.asp?tMadhNo=1&tTafsirNo=1&tSoraNo=27&tAyahNo=59&tDisplay=yes&UserProfile=0&LanguageId=1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
<a href="http://www.openburhan.net/ob.php?sid=48&vid=29">سورۃ الفتح کی آیت:29</a> میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں :<br />
1 : وہ کافروں پر سخت ہیں<br />
2 : آپس میں رحم دل ہیں<br />
3 : رکوع و سجود کی حالت میں رہتے ہیں<br />
4 : اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طالب رہتے ہیں<br />
5 : سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر ایک نشان نمایاں ہے<br />
6 : ان کے شرف و فضل کے تذکرے پہلی آسمانی کتب میں بھی موجود تھے<br />
7 : ان کی مثال اس کھیتی کے مانند ہے جو پہلے کمزور اور پھر آہستہ آہستہ قوی ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کمزور تھے ، پھر طاقت ور ہو گئے اور ان کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا جس سے کافروں کو چڑ تھی اور وہ غیض و غضب میں مبتلا ہو جاتے تھے۔<br />
<br />
بالا صفات کے حامل اور ایمان اور عملِ صالح کے مجسم صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔<br />
<br />
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">" إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا ، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ "</div>اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دل کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے لیے چُن لیا اور انہیں منصبِ رسالت عطا کیا ، اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ، اس لیے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا جو اس کے دین کا دفاع کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">مسند احمد ، جلد اول</span> - <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=121&hid=3468&pid=672352">آن لائن ربط</a><br />
<br />
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">" مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ ، أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ ، أَبَّرَهَا قُلُوبًا ، وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا ، وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا ، قَوْمٌ اخْتَارَهُمُ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَقْلِ دِينِهِ ، فَتَشَبَّهُوا بِأَخْلاقِهِمْ وَطَرَائِقِهِمْ فَهُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ ، ... "</div>اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتا ہو تو وہ اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلے جو وفات پا چکے ہیں ، وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی ص کی صحبت کے لیے ، اور آنے والی نسلوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے چُن لیا تھا ، اس لیے تم انہی کے طور طریقوں کو اپناؤ ، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر گامزن تھے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">حلية الأولياء لأبي نعيم</span> - <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=628&pid=138293&hid=1098">آن لائن ربط</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-85050646869218661242010-08-10T12:41:00.006+03:002010-08-22T10:47:26.028+03:00ام المومنین حضرت خدیجۃ رضی اللہ عنہا(ام المومنین) خدیجہ بنت خویلد بن اسد القرشیۃ<br />
مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے مسلمان ہونے والی خاتون ہیں۔<br />
<br />
آپ رضی اللہ عنہا 40 سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔ <a name='more'></a> اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 برس تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس سے پہلے اور ان (رضی اللہ عنہا) کی زندگی میں کسی بھی دوسری عورت سے شادی نہیں کی۔ سوائے ابراہیم (رضی اللہ عنہ) کے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہی تھی۔<br />
<br />
اسلام کے لیے آپ رضی اللہ عنہا نے بڑی قربانیاں دی ہیں ، اپنے مال کی تجوریاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھول دیں اور مشکل ترین حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ ہمیشہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہمت افزائی کرتی تھیں۔ اسلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اکثر و بیشتر یاد رکھا کرتے تھے۔ ان کی تعریفیں کیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا بھی خیال کیا کرتے تھے کہ یہ میری بیوی کی سہیلیاں ہیں۔<br />
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :<br />
<div style="color: #274e13;">مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ , وَمَا رَأَيْتُهَا وَلَكِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا , وَرُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاةَ ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أَعْضَاءً , ثُمَّ يَبْعَثُهَا فِي صَدَائِقِ خَدِيجَةَ فَرُبَّمَا ، قُلْتُ : لَهُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ ، فَيَقُولُ : " إِنَّهَا كَانَتْ وَكَانَتْ وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ " .</div>مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی بیوی پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ رشک نہیں آیا۔ حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح کر کے اس کا گوشت بنا کر سیدہ کی سہیلیوں کو ہدیہ بھیجتے۔ بعض دفعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتی "گویا دنیا میں خدیجہ کے علاوہ کوئی عورت ہی نہیں" ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں (یعنی ان کے اوصاف اور وفاؤں کا تذکرہ فرماتے) اور فرماتے کہ میری اس سے اولاد ہے۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب المناقب</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367782&hid=3559">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کتنی افضل ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور سیدنا جبرائیل علیہ السلام ، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سلام پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :<br />
<div style="color: #274e13;">أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ , فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي , وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ " .</div>ایک دفعہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سیدہ خدیجہ () تشریف لا رہی ہیں ، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا پینے کی کوئی چیز ہے ، جب وہ آپ کے پاس پہنچیں تو انہیں ان کے رب اور میری طرف سے سلام کہئے اور انہیں جنت میں ایسے گھر کی بشارت دیجئے جس میں کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ وہاں مشقت اٹھانی پڑے گی۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب المناقب</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367782&hid=3561">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ :<br />
<div style="color: #274e13;">" خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ "</div>سیدہ مریم بنت عمران (علیہ السلام) اپنے زمانے کی سب عورتوں سے بہتر تھیں اور سیدہ خدیجہ بنت خویلد (رضی اللہ عنہا) اپنے دور کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=4465&pid=41731">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جنت کی افضل ترین عورتوں میں سے ایک ہیں جو یقیناً ان کی قربانیوں کا ان کو صلہ ہے۔<br />
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: #274e13;">" أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ ، وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَان " </div>خواتین اہل جنت میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد ، فرعون کی بیوی آسیہ بن مزاحم اور مریم بن عمران ہیں۔<br />
<span style="color: purple;">مسند احمد ، بروایت عبداللہ بن عباس</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=121&hid=2568&pid=672350">آن لائن ربط</a><br />
<br />
آپ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 25 سال گزارے اور 65 سال کی عمر میں ہجرت سے تین سال قبل مکہ میں فوت ہوئیں۔<br />
اللہ تعالیٰ سیدہ (رضی اللہ عنہا) کے درجات کو اور بلند کرے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-38575458657031512142010-08-09T23:05:00.007+03:002010-08-22T10:46:54.408+03:00تعارف اہل البیت رضی اللہ عنہمارشاد باری تعالیٰ ہے :<br />
<div style="color: red;">يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفًا</div><div style="color: red;">وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلاَةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا</div><a name='more'></a> اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔<br />
اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالٰی یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔<br />
<div style="color: purple;">( الأحزاب:33 - آيت:32-33 )</div><br />
تمام مفسرینِ اہل سنت نے اتفاق کیا ہے کہ ان آیات میں اہل البیت سے مراد سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) ہیں کیونکہ آیاتِ کریمہ کا سیاق و سباق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں (رضی اللہ عنہن) ہی کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ آیت میں "اہل البیت" کا ذکر کرنے سے پہلے بھی بار بار "اے پیغمبر کی بیویو" کہہ کر ان کو مخاطب کیا گیا ہے۔<br />
<br />
جب اہل البیت (یعنی : گھر والے) کہا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس سے "بیوی" مراد لی جاتی ہے جس کی سب سے بڑی دلیل درج ذیل آیات ہیں :<br />
<br />
<div style="color: red;">وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَقَ يَعْقُوب</div><div style="color: red;">قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيب</div><div style="color: red;">قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيد</div>اس کی بیوی کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی۔<br />
وہ کہنے لگی ہائے میری کم بختی! میرے ہاں اولاد کیسے ہوسکتی ہے میں خود بڑھیا اور یہ میرے خاوند بھی بہت بڑی عمر کے ہیں یہ یقیناً بڑی عجیب بات ہے ۔<br />
فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگوں اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں بیشک اللہ حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے۔<br />
<div style="color: purple;">( هود:11 - آيت:71-73 )</div><br />
بالا آیات میں اہل البیت سے مراد یقینی طور پر سب سے پہلے سارہ (علیہ السلام) ہیں کیونکہ آیات میں انہی کو خطاب کیا جا رہا ہے۔<br />
<br />
اسی طرح ایک اور آیتِ کریمہ ہے :<br />
<div style="color: red;">فَلَمَّا قَضَى مُوسَىالأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ</div>تو جب موسیٰ نے مدت پوری کر لی تو اپنے اہل کو لے کر چلے<br />
<div style="color: purple;">( القصص:28 - آيت:29 )</div><br />
اس آیت میں بیوی کو "اہل" کہا گیا ہے کیونکہ بیوی کے سوا کوئی دوسرا ساتھ نہ تھا ، جس سے معلوم ہوا کہ بیوی "اہل" ہے۔<br />
<br />
حدیث الکساء (چادر والی حدیث) کی رو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل اہل خانہ ، "اہل البیت" میں شامل ہیں :<br />
سیدنا حسن و حسین و علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم !<br />
<br />
<a name="kasa">حدیث الکساء کے الفاظ ہیں :</a><br />
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ۔۔۔۔<br />
<div style="color: #274e13;">خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً ، وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، فَأَدْخَلَهُ ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ، ثُمَّ قَالَ : </div><div style="color: #274e13;">" إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا " .</div>ایک صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ بالوں کی بنی ہوئی نقش و نگار والی چادر اوڑھے نکلے تو حسن (رضی اللہ عنہ) آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کو اپنی چادر میں لے لیا۔ پھر حسین (رضی اللہ عنہ) آئے ، وہ بھی حسن کے ساتھ چادر میں آ گئے ، پھر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) آئیں تو ان کو بھی اپنی چادر میں لے لیا ، پھر علی (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے تو ان کو بھی اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا : اے اہل البیت ! اللہ کی یہ چاہت ہے کہ تم سے گندگی دور کرے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ</span> - <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=4457&pid=41728">آن لائن ربط</a><br />
<br />
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کہ :<br />
<div style="color: #274e13;">قَالَ : نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ ، قَالَ : وَمَنْ هُمْ ؟ قَالَ : هُمْ آلُ عَلِيٍّ ، وَآلُ عَقِيلٍ ، وَآلُ جَعْفَرٍ ، وَآلُ عَبَّاسٍ</div>آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل البیت میں داخل ہیں ؟<br />
تو انہوں نے جواب میں فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل البیت میں داخل ہیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اہل البیت وہ بھی ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ ہیں : آل علی ، آل جعفر ، آل عقیل ، آل عباس۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ</span> - <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&pid=41723&hid=4432">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اور ۔۔۔<br />
آل حارث بن عبدالمطلب ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل قول کی رو سے اہل البیت میں داخل ہیں :<br />
<div style="color: #274e13;">إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ</div>کہ بے شک صدقہ آل محمد کے لائق نہیں ہے۔ یہ تو لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب الزکوٰۃ</span> - <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=1791&pid=41057">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اہل البیت رضی اللہ عنہم چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تعلق رکھتے ہیں ، لہذا ہر مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھے۔ ان کے بارے میں نیکی کے جذبات رکھے جائیں۔ ان سے بغض و عناد قطعاً حرام ہے۔<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل البیت کے بارے میں خاص نصیحتیں فرمایا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت سے نہایت ہی واضح فرمان ہے کہ :<br />
<div style="color: #274e13;">ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ ، أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ، فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ، ثُمَّ قَالَ : وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي ، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي</div><div style="color: #274e13;">وفى رواية كتاب الله عز وجل. هو حبل الله. من اتبعه كان على الهدى. ومن تركه كان على ضلالة</div>لوگو! آگاہ رہو ، یہ حقیقت ہے کہ میں ایک بشر ہوں ، ہو سکتا ہے کہ جلد ہی میرے رب کا فرستادہ میرے پاس آئے اور میں اس کو قبول کر لوں۔ اور میں تم میں دو چیزیں چھوڑنے والا ہوں۔ ان میں پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے ، اس میں ہدایت اور نور ہے۔ تم اللہ کی کتاب کو تھام لو اور اس پر مضبوطی سے عمل کرو۔ <br />
چنانچہ آپ نے کتاب اللہ کی حفاظت پر زور دیا اور اس کی رغبت دلائی۔<br />
پھر فرمایا : دوسری چیز میرے اہل البیت ہیں۔ میں اپنے اہل البیت کے بارے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔<br />
ایک اور روایت میں ہے کہ کتاب اللہ ، اللہ کی رسی ہے جو اس پر چلے گا وہ ہدایت پر رہے گا ، اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہو جائے گا۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ</span> - <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&pid=41723&hid=4432">آن لائن ربط</a><br />
<br />
بالا حدیث سے اہل البیت کا مقام نہایت واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-1918918341544882112010-08-09T10:41:00.007+03:002010-08-22T10:46:08.330+03:00حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا<br />
بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور والدہ کا نام ام رومان بنت عامر بن عویمر ہے۔<br />
آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبداللہ تھی۔<br />
<a name='more'></a><br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیقۂ کائینات سے ہجرت سے تین سال قبل ماہِ شوال میں نکاح کیا اور رخصتی ہجرت کے دوسرے سال شوال میں ہوئی۔<br />
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر سیدہ عائشہ کا انتخاب کیا تھا۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ۔۔۔<br />
<br />
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ :<br />
تین راتوں تک تم مجھے خواب میں دکھائی گئیں ، فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر تمہاری تصویر لاتا رہا اور اس نے مجھے بتایا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ پھر جب میں نے تمہارے چہرے سے نقاب اٹھایا تو وہ تم تھیں۔ پس میں نے سوچا اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ تمہیں مجھ سے ملا دے گا۔<br />
صحیح بخاری ، کتاب المناقب : آن لائن ربط<br />
<br />
یہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا خاص فضل ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں آپ (رضی اللہ عنہا) کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اس زوجۂ محترمہ سے بےپناہ محبت تھی۔<br />
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟<br />
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :<br />
ع (عائشہ سے)<br />
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط<br />
<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ۔۔۔<br />
لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا نَزَلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا<br />
مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف مت پہنچاؤ۔ اللہ کی قسم ! عائشہ کے سوا کسی اور بیوی کے بستر پر مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی۔<br />
صحیح بخاری ، کتاب المناقب : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367762&hid=3516">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔<br />
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا :<br />
اما ترضین<br />
کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم دنیا اور آخرت میں میری بیوی رہو؟<br />
میں نے جواب دیا کہ : اللہ کی قسم ، کیوں نہیں۔<br />
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :<br />
فانت<br />
دنیا اور آخرت میں تم میری بیوی ہو۔<br />
ونیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :<br />
عائشہ<br />
عائشہ جنت میں میری بیوی ہے۔<br />
صحیح الجامع الصغیر : آن لائن ربط<br />
<br />
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا وہ عظیم المرتبت عابد و زاہد شخصیت ہیں کہ اللہ کے فرشتے بھی انہیں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔<br />
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ ۔۔۔<br />
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :<br />
یا عائشہ<br />
اے عائشہ ! یہ جبریل علیہ السلام ہیں ، وہ تمہیں سلام پیش کر رہے ہیں۔<br />
سیدہ عائشہ نے جواب دیا :<br />
وعلیہ<br />
جبرائیل پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔<br />
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367762&hid=3509">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ۔۔۔<br />
<br />
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دن وفات پائی جو میری باری کا دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ () کی روح جس وقت قبض کی آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا اور آخری لمحات میں آپ کا لعاب دہن میرے لعاب سے مل گیا۔<br />
صحیح بخاری ، کتاب المغازی : آن لائن ربط<br />
<br />
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا علم میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
ما اشکل<br />
جب ہم اصحابِ رسول پر کسی حدیث میں کبھی کوئی اشکال پیش آیا تو ہم نے سیدہ عائشہ سے پوچھا اور ہم نے اس حدیث کے بارے میں معلومات پائیں۔<br />
سنن ترمذی ، کتاب المناقب : آن لائن ربط<br />
<br />
اور موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
ما رایت<br />
میں نے سیدہ عائشہ سے بڑھ کر کوئی فصیح و بلیغ نہیں دیکھا۔<br />
سنن ترمذی ، کتاب المناقب : آن لائن ربط<br />
<br />
ام المومنین حضرت عائشہ کی دیگر اہل بیت سے ہرگز کوئی کشیدگی نہیں تھی بلکہ ایک دوسرے سے گہری محبت تھی اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے مقام و مرتبہ کو خوب پہچانتے تھے۔<br />
اس محبت کا سب سے بڑا ثبوت تو وہ روایات ہیں جو فضائل اہل بیت اور فضائل سیدۃ النساء فاطمہ کے ذیل میں آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں<br />
مثلاً ۔۔۔ <br />
<ul><li><a href="http://assahaba.blogspot.com/2010/08/ahlul-baith.html#kasa">حدیث الکساء صحیح مسلم</a></li>
<li><a href="http://assahaba.blogspot.com/2010/08/khatoon-e-jannat.html#fatima">سیدۃ النساء فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت : ابوداؤد</a></li>
</ul>امام جعفر صدیق کا شمار کبار فقہائے امت میں ہوتا ہے۔ ان کے دو نانا ، محمد بن ابی بکر اور عبدالرحمٰن بن ابی بکر ، حضرت عائشہ کے سگے بھائی تھے۔ اس لحاظ سے حضرات اہل بیت اور آل صدیق مین خونی رشتہ تھا۔<br />
<br />
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی ایک بڑی جماعت نے حدیث روایت کی ہے۔<br />
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جنتی زوجہ ام المومنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) سن 57ھ کو مدینہ میں فوت ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق انہیں رات میں دفن کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ سیدنا ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) نے پڑھائی۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-45733169235337338572010-08-08T22:21:00.009+03:002010-08-22T12:47:07.427+03:00نوجوانانِ جنت کے سردار صحابیحضرت حسن رضی اللہ عنہ<br />
اور<br />
حضرت حسین رضی اللہ عنہ<br />
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں۔<br />
<a name='more'></a><br />
اگر یہ کہا جائے کہ نواسے اپنے نانا کی اولاد میں شمار نہیں ہوتے کیونکہ اولاد ہمیشہ اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے تو یہ محض مغالطہ اور فریب ہے۔<br />
<br />
حجاج بن یوسف نے جب یہی بات مشہور تابعی ، فقیہ ، نحوی اور محدث یحییٰ بن یعمر سے پوچھی اور بڑے تحدید آمیز انداز میں کہا :<br />
اس کا ثبوت پیش کرو کہ حسنین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہے ورنہ میں تمہاری تکہ بوٹی کر دوں گا۔<br />
تو انہوں نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :<br />
<div style="color: red;">وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِين</div><div style="color: red;">وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِين</div>اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد قرار دیا گیا ہے۔ بتلاؤ عیسیٰ علیہ السلام کا باپ کون تھا؟<br />
یہ سن کر حجاج ششدر رہ گیا۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">تفسیر ابن کثیر</span> : <a href="http://altafsir.com/Tafasir.asp?tMadhNo=0&tTafsirNo=7&tSoraNo=6&tAyahNo=84&tDisplay=yes&Page=2&Size=1&LanguageId=1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ ، تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">وعدّ عيسى من ذريّة إِبراهيم وإنما هو ٱبن البنت. فأولاد فاطمة رضي الله عنها ذرّية النبيّ صلى الله عليه وسلم. وبهذا تمسّك من رأى أن ولد البنات يدخلون في اسم الولد</div>حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں شمار کیا گیا ہے حالانکہ وہ بیٹی کے بیٹے ہیں۔ پس سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت ہے۔ اور اسی آیت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو نواسوں کو بھی بیٹا قرار دیتے ہیں۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">تفسیر قرطبی</span> : <a href="http://altafsir.com/Tafasir.asp?tMadhNo=0&tTafsirNo=5&tSoraNo=6&tAyahNo=84&tDisplay=yes&UserProfile=0&LanguageId=1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) کی پیدائش اکثر مورخین کے نزدیک ماہِ رمضان سن 3 ھجری ہے۔<br />
فتح الباری میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : <span style="color: blue;">كان مولد الحسن في رمضان سنة ثلاث من الهجرة عند الأكثر</span><br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">فتح الباری</span> : <a href="http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=12&CID=351&SW=%E3%E6%E1%CF%20%C7%E1%CD%D3%E4#SR1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اور حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی پیدائش اکثر مورخین کے نزدیک ماہِ شعبان سن 4 ھجری ہے۔<br />
فتح الباری میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : <span style="color: blue;">وكان مولد الحسين في شعبان سنة أربع في قول الأكثر</span><br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">فتح الباری</span> : <a href="http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=12&CID=351&SW=%E3%E6%E1%CF%20%C7%E1%CD%D3%ED%E4#SR1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرمایا :<br />
هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا<br />
یہ (حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=3494&pid=367754">آن لائن ربط</a><br />
<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا ہے :<br />
أَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ<br />
اور حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔<br />
<span style="color: purple;">سنن ترمذی</span> ، <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=195&hid=3744&pid=443301">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :<br />
مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي<br />
جو شخص حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) سے محبت کرے گا ، پس تحقیق اس نے مجھ سے محبت کی اور جو ان سے بغض رکھے گا ، وہ مجھ سے بغض رکھے گا۔<br />
<span style="color: purple;">سنن ابن ماجہ</span> ، <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=173&hid=140&pid=42227">آن لائن ربط</a><br />
<br />
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) نمودار ہوئے جنہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور بار بار پھسل رہے تھے چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے ، اپنا خطبہ روک دیا ، انہیں اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا ، پھر آپ انہیں اٹھائے ہوئے منبر پر چڑھے اور فرمایا :<br />
صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15 ، رَأَيْتُ هَذَيْنِ فَلَمْ أَصْبِرْ<br />
اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ (بےشک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں) میں نے انہیں دیکھا تو مجھ سے رہا نہ جا سکا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔<br />
<span style="color: purple;">سنن ابو داؤد</span> ، <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=184&hid=937&pid=438220">آن لائن ربط</a><br />
<br />
بالا احادیث سیدین کریمین کی محبت و عظمت اور مقام و منقبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لہذا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ دونوں شہزادوں سے محبت کرے۔ ان کے لیے عقیدت و محبت کے جذبات اپنے اندر پیدا کرے اور ہر قسم کے بغض و نفرت سے اپنا آئینہ دل صاف کرے۔ کیونکہ یہ کامیابی و کامرانی کے لیے ضروری ہے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-36264349576003708202010-08-08T11:07:00.010+03:002010-08-22T10:45:16.331+03:00خواتینِ جنت کی سردار صحابیہسیدہ فاطمہ<br />
سرورِ کائینات صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی کا نام تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ (رضی اللہ عنہا) کی ولادت سے متعلق مختلف روایات کچھ یوں ہیں کہ : <a name='more'></a><br />
بعثتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پانچ سال قبل ، بعثتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ایک سال پہلے ، بعثتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک سال بعد۔<br />
<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ لقب کے مطابق ، آپ رضی اللہ عنہا ، خواتینِ جنت کی سردار ہیں ، یعنی :<br />
<div style="color: #274e13;">فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ</div><span style="color: purple;">صحیح بخاری</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?hflag=1&bk_no=146&pid=367761">آن لائن لنک</a><br />
<br />
اہل البت رضی اللہ عنہم میں سے آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ (رضی اللہ عنہا) سے بےانتہا محبت کرتے تھے۔ اپنی اس لاڈلی بیٹی کو دی جانے والی کسی بھی تکلیف کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قطعاً پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو رنجیدہ دیکھ کر فرمایا :<br />
<div style="color: #274e13;">فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي</div>فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے ناحق ناراض کیا اس نے مجھ کو ناراض کیا۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367761&hid=3508">آن لائن لنک</a><br />
<br />
<div style="color: #274e13;">فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا ، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا</div>جس بات سے اسے کوئی رنج پہنچتا ہے ، وہ مجھے رنجیدہ کر دیتی ہے۔ جو چیز اسے اذیت دیتی ہے ، وہ میرے لیے بھی باعثِ اذیت ہے۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&pid=41734&hid=4489">آن لائن لنک</a><br />
<br />
ماہِ رمضان سن 2 ھجری میں آپ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عم زاد علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے کیا۔ <br />
اکثر مورخین نے یہ شادی غزوہ بدر کے بعد ہی بیان کی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">تزوجها علي رضي الله عنه بعد بدر في السنة الثانية</div>حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی 2 ھجری میں غزوہ بدر کے بعد کی ہے۔<br />
<span style="color: purple;">فتح الباری</span> : <a href="http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=12&CID=352&SW=%C7%E1%D3%E4%C9%20%C7%E1%CB%C7%E4%ED%C9#SR1">آن لائن لنک</a><br />
<br />
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دختر نیکِ اختر کو مخاطب کر کے فرمایا :<br />
<div style="color: #274e13;">واﷲِ مَا أَلَوْتُ أَنْ زَوَّجْتُکِ خَيْرَ أَهْلِيْ</div>اے فاطمہ ! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں سے بہترین شخص کے ساتھ کی ہے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">طبقات ابن سعد ، 8/24</span><br />
<br />
حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ، رفتار و گفتار اور عادات و خصائل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترین نمونہ تھیں۔<br />
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ :<br />
<div style="color: #274e13;">كن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عنده ، لم يغادر منهن واحدة ، فأقبلت فاطمة تمشي ما تخطئ مشيتها من مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا</div>ہم ازواج النبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھیں کہ سیدہ فاطمہ آئیں۔ ان کی چال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے مشابہ تھی۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&pid=41734&hid=4494">آن لائن لنک</a><br />
<br />
<a href="http://www.blogger.com/post-edit.g?blogID=6912853387918969674&postID=3626434957600370820" name="fatima">حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مزید روایت کرتی ہیں :</a><br />
فاطمہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت ، صفات عالیہ اور آپ کے حسنِ اخلاق سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں۔ اور ان کا اندازِ گفتگو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ گفتگو سے بہت ملتا جلتا تھا۔ اور جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی تھیں تو آپ ان کی طرف چل کر جاتے اور ان کا استقبال کرتے ، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کا بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ان کے پاس جاتے تو وہ بھی ان کی طرف چل کر جاتیں اور ان کا استقبال کرتیں ، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کا بوسہ لیتیں اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔<br />
<span style="color: purple;">ابو داؤد ، کتاب الادب</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=184&hid=4543&pid=439737">آن لائن لنک</a><br />
<br />
سیدہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نہایت متقی ، صابر و قانع اور دیندار خاتون تھیں۔ گھر کا تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ، گھر میں جھاڑو دینے اور چولہا پھونکنے سے کپڑے میلے ہو جاتے ، لیکن ان کے ماتھے پر بل نہیں آتا تھا۔ گھر کے کاموں کے علاوہ عبادات بھی کثرت سے کرتی تھیں۔<br />
ایک دن حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) اور آپ کے شوہر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) آٹھ پہر سے بھوکے تھے۔ حضرت علی کو کہیں سے مزدوری میں ایک درہم مل گیا تو وہ جَو خرید کر گھر پہنچے۔ بی بی فاطمہ نے جَو چکی میں پیسے ، روٹی پکائی اور اپنے خاوند کے سامنے رکھ دی۔ جب وہ کھا چکے تو خود کھانے بیٹھیں۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :<br />
مجھے اس وقت سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آیا کہ فاطمہ دنیا کی بہترین عورت ہے !<br />
<br />
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھا :<br />
جانِ پدر ! (مسلمان) عورت کے اوصاف کیا ہیں؟<br />
انہوں نے عرض کیا : اباجان ! عورت کو چاہئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرے ، اولاد پر شفقت کرے ، اپنی نگاہ نیچی رکھے ، اپنی زینت کو چھپائے ، نہ خود غیر کو دیکھے اور نہ غیر اس کو دیکھ پائے۔<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔<br />
<br />
سرورِ کائینات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ تمام کتبِ سیر اس بات پر متفق ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد کسی نے سیدہ فاطمہ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔<br />
سیدہ رضی اللہ عنہا کو 6 اولادیں ہوئیں :<br />
حسن ، حسین ، محسن ، امّ کلثوم ، رقیہ اور زینب رضی اللہ عنہم<br />
محسن اور رقیہ نے بچپن ہی میں انتقال کیا۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی سے باقی رہی۔<br />
<br />
کتبِ احادیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے 18 حدیثیں مروی ہیں۔ ان کے رواۃ میں علی ، حسن ، حسین ، عائشہ صدیقہ اور ام سلمہ (رضی اللہ عنہم) جیسی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔<br />
<br />
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد ہی ، 28 سال کی عمر میں سیدہ فاطمہ نے انتقال فرمایا۔ رضی اللہ عنہما و ارضاہا۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-84361849820286280392010-08-07T21:41:00.009+03:002010-08-22T12:16:12.674+03:00حضرت علی رضی اللہ عنہعلی بن ابی طالب بن ہاشم بن عبدمناف<br />
آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔ اور آپ کا لقب حیدر ہے۔<br />
آپ کی پیدائش بعثتِ نبوی سے دس سال قبل کی ہے۔<br />
<a name='more'></a>اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے بعد صحابہ کرام میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سب سے افضل صحابی ہیں۔ آپ خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی مدت چار سال نو ماہ اور کچھ دن ہے۔ آپ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی اور داماد تھے۔<br />
<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اپنی لاڈلی دختر کا نکاح علی بن طالب (رضی اللہ عنہ) سے کرنا ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ بلند ترین اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک علی بن طالب رضی اللہ عنہ اس قدر اہم شخص تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک دفعہ فرمایا :<br />
<div style="color: #274e13;">لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي</div>تم میرے نزدیک وہی مقام رکھتے ہو جو مقام موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ہارون (علیہ السلام) کا تھا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&pid=41723&hid=4425">آن لائن ربط</a><br />
<br />
مومنین کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت دین و ایمان کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اُن سے محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی دلیل ہے۔ کوئی شخص مومن کہلانے کا اُس وقت تک حقدار نہیں ہے جب تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہ رکھے۔<br />
خود حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمانِ پاک یوں پیش فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: #274e13;">وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِلَيَّ أَنْ " لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِق " .</div>اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کے پھاڑا اور ہر جاندار چیز کو پیدا فرمایا کہ نبی اُمی نے مجھ سے تاکیداً کہا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور منافق کے سوا اور کوئی مجھ سے بغض نہیں رکھے گا۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب الایمان</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&pid=40633&hid=116">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا علی بن ابی طالب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عظیم مقام ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت بااعتماد رفیق ہیں۔ اسی لیے فرامینِ نبوی میں درج ہے :<br />
<div style="color: #274e13;">إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ , وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي</div>علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا دوست ہے۔<br />
<span style="color: purple;">ترمذی ، کتاب المناقب</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=195&hid=3675&pid=443293">آن لائن ربط</a><br />
<br />
<div style="color: #274e13;">مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ</div>جس شخص کے ساتھ میں دوستی رکھتا ہوں ، اس سے علی بھی دوستی رکھتا ہے۔<br />
<span style="color: purple;">ترمذی ، کتاب المناقب</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=195&pid=443293&hid=3676">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کشادہ دل اور کشادہ ذہن تھے۔ آپ نے کھلے دل سے اپنے ساتھیوں کی فضیلت بیان کی ہے۔ جب آپ کو پتا چلا کہ کچھ لوگ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں تو آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا:<br />
<span style="color: blue;">والذي فلق الحبة وبرأ النسمة! لا يحبهما إلا مؤمن فاضل، ولا يبغضهما ولا يخالفهما إلا شقي مارق، فحبهما قربة وبغضهما مروق، ما بال أقوام يذكرون أخوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ووزيريه وصاحبيه وسيدي قريش وأبوي المسلمين؟ فأنا بريء ممن يذكرهما بسوء وعليه معاقب.</span> <br />
اس ذات کی قسم جس نے دانے اور گٹھلی کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا ! ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو فاضل مومن ہوگا ، اور ان دونوں سے وہی بغض و عداوت رکھے گا جو بدبخت اور مارق (بدمذہب) ہوگا ، کیونکہ ان دونوں کی محبت تقرب الٰہی کا سبب ہے اور ان سے بغض و نفرت رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بھائیوں ، اور دو وزیروں ، اور دو ساتھیوں اور قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں؟ میں ان لوگوں سے لاتعلق ہوں جو ان دونوں کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ، اور اس پر انہیں سزا دوں گا۔<br />
<span style="color: purple;">کنزالعمال</span> : <a href="http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=137&CID=458&SW=36096#SR1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
ونیز ۔۔۔<br />
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے عراق والوں سے کہا تھا :<br />
<div style="color: blue;">اقْضُوا كَمَا كُنْتُمْ تَقْضُونَ فَإِنِّي أَكْرَهُ الِاخْتِلَافَ حَتَّى يَكُونَ لِلنَّاسِ جَمَاعَةٌ أَوْ أَمُوتَ كَمَا مَاتَ أَصْحَابِي</div>جس طرح تم پہلے فیصلہ کیا کرتے تھے ، اب بھی کیا کرو ، کیونکہ میں اختلاف کو برا جانتا ہوں۔ اسی وقت تک کہ سب لوگ جمع ہو جائیں یا میں بھی اپنے ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم) کی طرح دنیا سے چلا جاؤں۔<br />
ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ :<br />
<div style="color: blue;">يَرَى أَنَّ عَامَّةَ مَا يُرْوَى عَنْ عَلِيٍّ الْكَذِبُ</div>عام لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایات (شیخین کی مخالفت میں) بیان کرتے ہیں وہ قطعاً جھوٹی ہیں۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، فضائل اصحاب النبی</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367741&hid=3455">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات اوصافِ حمیدہ کا مجموعہ تھی۔ آپ کے اندر ساری اچھی خوبیاں مثلاً امانت و دیانت ، زہد و تقویٰ وغیرہ موجود تھیں۔<br />
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لسانِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے شہید کا درجہ بھی عطا کیا گیا ہے۔<br />
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے ساتھ حراء کی ایک چٹان پر تھے کہ چٹان نے حرکت کی ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :<br />
<div style="color: #274e13;">اسْكُنْ حِرَاءُ ، فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ ، أَوْ صِدِّيقٌ ، أَوْ شَهِيدٌ</div>آرام سے رہو ، کیونکہ تم پر نبی ، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔<br />
<span style="color: purple;">صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=4446&pid=41725">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا علی المرتضیٰ 17 رمضان المبارک سن 40 ھجری کو صبح کے اوقات میں بدبخت ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوئے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-171159760580964782010-08-07T10:28:00.005+03:002010-08-22T10:44:14.216+03:00حضرت عثمان رضی اللہ عنہعثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف<br />
ابو عبداللہ اور ابوعمر کنیت<br />
والد ماجد کا نام عفان اور والدہ ماجدہ کا نام ارویٰ<br />
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ پانچویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔<br />
<a name='more'></a><br />
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی بیضاء ام الحکیم عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ اس لیے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) ماں کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">فتح الباری ، کتاب المناقب</span> : <a href="http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=12&CID=348&SW=%C7%E3%20%CD%DF%ED%E3%20%C7%E1%C8%ED%D6%C7%C1#SR1">آن لائن ربط</a><br />
<br />
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ امت نے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کو متفق علیہ طور پر اپنا امام اور پیشوا بنایا تھا۔ آپ خلافتِ راشدہ کے تیسرے خلیفہ ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی مدت 12 سال ہے۔ مستند تاریخی واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ممالک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح کئے گئے۔ دنیائے اسلام میں سیدنا عثمان (رضی اللہ عنہ) سے بڑا حکمران پیدا ہی نہیں ہوا۔<br />
<br />
یہ ایک عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی بعض امتیازی فضیلتوں اور حیثیتوں میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد شریک نہیں ہے !<br />
اور وہ امتیازی خصوصیت اور فضیلت یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں ان کے نکاح میں دی ہیں۔ یہ اتنا بڑا شرف ہے کہ اس شرف میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد و بشر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہمسر نہیں ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں ان سے عظیم کوئی نہ تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیٹی کے فوت ہو جانے کے بعد دوسری بیٹی کا رشتہ بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی دیا ہے جو ان کے عظیم سے عظیم تر ہونے کی دلیل ہے۔<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کے سبب ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو <span style="color: #741b47;">ذو النورین (دو نوروں والا)</span> کا لقب حاصل ہے۔<br />
<br />
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک باغ میں تھے اور باغ کے دروازے پر حضرت ابوموسیٰ موجود تھے تب وہاں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم آئے جنہیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جنتی ہونے کی بشارت دی۔<br />
پھر راوی ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔<br />
پھر دروازے پر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :<br />
<div style="color: #274e13;">افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تَكُونُ</div>اجازت دے دو اور اسے جنت کی بشارت بھی سنا دو ، اور اسے آگاہ کرو کہ اس پر ایک مصیبت نازل ہوگی۔<br />
راوی ابوموسیٰ اشعری آگے کہتے ہیں کہ ۔۔۔ میں نے دیکھا تو وہ عثمان تھے !<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=4423&pid=41722">آن لائن ربط</a><br />
<br />
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ رضی اللہ عنہ کو "شہید" قرار دیا ہے۔<br />
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ کانپنے لگا، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا پاؤں اس پر مارتے ہوئے فرمایا :<br />
<div style="color: #274e13;">اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدَانِ</div>احد ٹھہر جاؤ ! کیونکہ تجھ پر ایک پیغمبر ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں !!<br />
<span style="color: purple;">صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=3434&pid=367738">آن لائن ربط</a><br />
<br />
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ اس قدر باحیا تھے کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے۔<br />
نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ (رضی اللہ عنہ) ہی کے متعلق ارشاد فرمایا تھا :<br />
أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ<br />
کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ؟<br />
<span style="color: purple;">صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=4421&pid=41722">آن لائن ربط</a><br />
<br />
مشرکینِ مکہ کے غیض و غضب سے لاچار ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اشارہ پر اور حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہلِ وطن کو چھوڑ کر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ رقیہ (رضی اللہ عنہا) کے ساتھ جلا وطن ہوئے۔ اس جلاوطنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :<br />
ان عثمان اول<br />
میری امت میں عثمان پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلا وطن ہوا۔<br />
بحوالہ : الاصابہ : آن لائن ربط<br />
<br />
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ آپ احد اور بدر کی جنگوں میں اور بیعتِ رضوان میں بھی حاضر نہیں تھے۔ اہلِ حق جب اس کی وجوہات جاننے کی جستجو کرتے ہیں تو صحیح بخاری میں درج حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت سامنے نظر آتی ہے۔<br />
<br />
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
قریب آؤ ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا۔<br />
احد کی لڑائی والی لغزش کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے (بحوالہ : سورہ آل عمران ، آیت:155)<br />
بدر کی لڑائی میں غیر حاضری کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاحبزادی رقیہ (رضی اللہ عنہا) ان کے نکاح میں تھیں اور وہ سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا تھا:<br />
ان لک اجر<br />
تمہیں جنگِ بدر میں ایک شریک کے برابر ثواب اور مالِ غنیمت سے حصہ ملے گا۔<br />
اور جہاں تک بیعتِ رضوان سے ان کے غیر حاضر ہونے کا تعلق ہے تو اگر مکہ میں عثمان (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کوئی اثر و رسوخ والا ہوتا تو (قریش سے گفتگو کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے۔ پس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عثمان (رضی اللہ عنہ) کو بھیجا۔ اور بیعتِ رضوان ان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی۔ اس موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا :<br />
<span style="color: #274e13;">هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ</span> (یہ عثمان کا ہاتھ ہے)<br />
اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا :<br />
<span style="color: #274e13;">هَذِهِ لِعُثْمَانَ</span> (یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے !)<br />
<span style="color: purple;">صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=3446&pid=367739">آن لائن ربط</a><br />
<br />
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا ذکر کیا۔ اس دوران ایک آدمی سر پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :<br />
ھذا<br />
یہ شخص فتنہ کے دنوں میں ہدایت پر ہوگا۔<br />
حدیث کے راوی نے جب اس شخص کو سامنے سے دیکھا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ راوی نے حضرت عثمان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب پھیرتے ہوئے پوچھا :<br />
ان کے بارے میں ہی آپ یہ فرما رہے ہیں؟<br />
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً کہا : ہاں !<br />
مسند احمد : آن لائن ربط<br />
<br />
تقریباً یہی روایت طبرانی اوسط میں بھی ان زائد الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔۔۔<br />
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :<br />
اتبعوا<br />
اس شخص اور اس کے ساتھیوں کا ساتھ دینا۔<br />
راوی حضرت مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں اس شخص کی طرف ہو لیا۔ وہ عثمان (رضی اللہ عنہ) تھے۔ میں نے انہیں پکڑا اور ان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف کرتے ہوئے عرض کیا :<br />
اے<br />
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اسی شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے؟<br />
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ہاں !<br />
طبرانی : آن لائن ربط<br />
<br />
گویا فتنہ کے دَور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حق بجانب قرار دیا بلکہ ان کا ہمنوا بننے اور ان کی تابعداری کا بھی حکم دیا تھا !!<br />
<br />
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ماہ ذی الحجہ سن 35 ھجری میں جمعہ کے دن شہید کیا گیا۔<br />
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :<br />
<div style="color: blue;">تُقْتَلُ وَأَنْتَ مَظْلُومٌ ، وَتَقْطُرُ قَطْرَةٌ مِنْ دَمِكَ عَلَى فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ سورة البقرة آية 137</div>سیدنا عثمان مظلوم قتل ہوئے ، تلاوت کے دوران جب انہیں شہید کیا گیا تو آپ کے خون کے قطرے اس آیت مبارکہ پر ٹپکے :<br />
<div style="color: red;">فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ</div><span style="color: purple;">اسد الغابہ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1591&hid=1026&pid=407661">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-822783559362701132010-08-06T23:01:00.006+03:002010-08-22T11:08:07.947+03:00حضرت عمر رضی اللہ عنہعمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی<br />
عمر نام ، ابوحفص کنیت ، فاروق لقب<br />
والد ماجد کا نام خطاب اور والدہ ماجدہ کا نام ختمہ<br />
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ آٹھویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔<br />
<a name='more'></a><br />
تمام اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سب سے افضل صحابی ہیں اور وہی ان کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔<br />
<br />
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، ہجرتِ نبوی سے 40 برس پہلے پیدا ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، ان میں سے ایک سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">الاستيعاب في معرفة الأصحاب ، تذکرہ عمر رضی اللہ عنہ</span><br />
<br />
کتبِ سیرت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ہمشیرہ پر ظلم کیا اور پھر انہی کی طرف سے قرآن سننے کے بعد اسلام لے آئے۔ اس ضمن میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی زبانی ہے کہ ۔۔۔ <br />
<br />
انہوں نے مسجد حرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے دوران سورۃ الحاقہ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور وہ قرآن کریم کے نظم و اسلوب سے حیرت زدہ ہو گئے۔ مکمل سورت کی تلاوت سن کر بالآخر انہیں محسوس ہوا کہ اسلام ان کے دل میں پوری طرح گھر کر گیا ہے۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">الوسيط في تفسير القرآن المجيد ، سُورَةِ الْفَاتِحَةِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1851&hid=994&pid=280575">آن لائن ربط</a><br />
<br />
مورخین اسلام کی رائے کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبوت کے ساتویں سال میں ایمان لے آئے۔<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ ۔۔۔<br />
<div style="color: #274e13;">اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ : بِأَبِي جَهْلٍ , أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ</div>اے اللہ ! ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔<br />
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں کہ :<br />
<div style="color: blue;">وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ .</div>اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں سے عمر (رضی اللہ عنہ) زیادہ محبوب تھے۔<br />
<span style="color: purple;">سنن ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب المناقب</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=195&hid=3644&pid=443291">آن لائن ربط</a><br />
<br />
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔<br />
<div style="color: blue;">مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ</div>عمر (رضی اللہ عنہ) نے جب سے اسلام قبول کیا تب سے ہماری طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا گیا۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب المناقب</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367738&hid=3432">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین میں اس قدر پختہ تھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی ان کے مقابلے میں آنے سے کتراتا تھا۔<br />
اسی حقیقت کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ہے کہ ۔۔۔<br />
<br />
<div style="color: #274e13;">إِيهًا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ</div>اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحاب النبی</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=3431&pid=367738">آن لائن ربط</a><br />
<br />
یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو موقف اختیار کرتے تھے تو اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا تھا۔<br />
جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ۔۔۔<br />
مقام ابراہیم کو مستقل جائے نماز بنانے کی رائے<br />
امہات المومنین کو حجاب کا حکم دینے کی رائے<br />
بدر کے قیدیوں سے متعلق رائے<br />
کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے موافقت کی تھی۔<br />
<span style="color: purple;">صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&hid=4419&pid=41721">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اسی موضوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
<br />
<div style="color: #274e13;">إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ</div>بےشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور ان کے دل پر حق رکھ دیا ہے۔<br />
<span style="color: purple;">جامع الترمذي ، كِتَاب الدَّعَوَاتِ ، أبوابُ الْمَنَاقِبِ </span>: <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=195&hid=3645&pid=443291">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اور ۔۔۔<br />
<div style="color: #274e13;">لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ</div>تم لوگوں سے پہلی امتوں میں محدثون (الہامی) لوگ ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہے۔<br />
<span style="color: purple;">صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=3437&pid=367738">آن لائن ربط</a><br />
<br />
اسی طرح ۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی کچھ ایسی ہی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔۔<br />
جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں آراء مختلف ہوتیں اور عمر (رضی اللہ عنہ) کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن کریم انہی کی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا۔<br />
<span style="color: purple;">مسند احمد</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=121&hid=5544&pid=672353">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف اشارہ ایک حدیث سے یوں ملتا ہے ۔۔۔<br />
دوران خواب میں نے اپنے آپ کو ایسے کنویں پر پایا جس کی منڈیر نہیں تھی ، اس میں ایک ڈول تھا۔ میں نے اس کنویں سے جتنے اللہ تعالیٰ نے چاہے ڈول کھینچے پھر اس ڈول کو ابن قحافہ (ابوبکر) نے تھام لیا۔ انہوں نے اس کنویں سے ایک یا دو ڈول کھینچے ، ان کے کھینچنے کی کمزوری کو اللہ معاف فرمائے ، اس کے بعد ڈول بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا اور اس کو ابن الخطاب نے پکڑ لیا۔ میں نے انسانوں میں کوئی مضبوط طاقتور شخص نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچتا ہو۔ اس نے اتنے ڈول کھینچے کہ سب لوگ جانوروں اور زمین سمیت سیراب ہو گئے۔<br />
<span style="color: purple;">صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=3430&pid=367738">آن لائن ربط</a><br />
<br />
یہ حدیث سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد وہی خلیفہ راشد قرار پائیں گے۔<br />
<br />
سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مداح تھے۔<br />
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو عمر (رضی اللہ عنہ) کیلئے اُس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :<br />
{اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔ "میں ، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے" ۔۔۔ تو اسی لیے مجھے (پہلے سے) امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا۔}<br />
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔<br />
<span style="color: purple;">صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367738&hid=3433">آن لائن ربط</a><br />
<br />
دس سالہ خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک بدبخت فیروز ابولولو کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یکم محرم سن 24ھ کو اپنا رخت سفر باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ہمیشہ کی نیند سو گئے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-36636436618363445032010-08-06T17:10:00.011+03:002010-08-22T11:05:43.199+03:00حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہعبداللہ بن عثمان بن عامر وبن کعب بن سعد<br />
عبداللہ نام ، ابوبکر کنیت ، صدیق اور عتیق لقب<br />
والد ماجد کا نام عثمان ابوقحافہ اور والدہ ماجدہ کا نام سلمٰی ام الخیر<br />
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ چھٹی پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔<br />
<a name='more'></a><br />
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور جان و مال سے شجرِ اسلام کی حفاظت کی ہے۔ بالغ مَردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی شخصیت آپ ہی کی تھی۔ ہجرت کے سفر میں بھی آپ اکیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔<br />
<br />
ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن ہی سے خاص انس اور خلوص تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقۂ احباب میں داخل تھے۔ تجارت کے اکثر سفروں میں بھی انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔<br />
بحوالہ : <span style="color: purple;">کنز العمال</span><br />
<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی لسانِ مبارک سے سیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے احسانات کا اعتراف فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں :<br />
<div style="color: #274e13;">" أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خِلِّهِ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلًا ، وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ " .</div>اللہ تعالیٰ نے تمہارے رفیق کو (اپنا) خلیل بنایا ہے۔ جتنا فائدہ مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے اتنا فائدہ کبھی کسی کے مال نے نہیں پہنچایا اور اگر میں کسی کو خلیل بنانا چاہتا تو ابوبکر کو بناتا۔ خبردار تمہارا صاحب اللہ کا خلیل ہے۔<br />
<span style="color: purple;">ترمذی ، کتاب المناقب</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=195&hid=3618&pid=443289">آن لائن ربط</a><br />
<br />
ابوسعید خدری (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :<br />
<div style="color: #274e13;">" إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا غَيْرَ رَبِّي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ " .</div>میرا ساتھ نبھانے اور مال خرچ کرنے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے ، اور اگر میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو خلیل بنانے والا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا ، لیکن اسلامی بھائی چارہ اور اس کی محبت ہی کافی ہے۔ مسجد کے تمام دروازوں کو بند رکھا جائے سوائے بابِ ابوبکر کے۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحابہ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367735&hid=3405">آن لائن ربط</a><br />
<br />
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ سیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ان سب سے افضل ہیں۔<br />
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔<br />
<div style="color: #274e13;">" كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ " .</div>نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان سیدنا ابوبکر ، پھر عمر اور پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?hflag=1&bk_no=146&pid=367736">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا ۔۔۔<br />
<span style="color: #274e13;">أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ، قَالَ : ثُمَّ عُمَرُ</span><br />
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین شخص ابوبکر اور پھر ان کے بعد عمر ہیں۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367737&hid=3419">آن لائن ربط</a><br />
<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بشارت دی تھی کہ :<br />
<div style="color: #274e13;">وَقَالَ : هَلْ يُدْعَى مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : " نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَكْرٍ " .</div>آپ کو جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا کہ آپ جنت میں آ جائیں۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&pid=367737&hid=3417">آن لائن ربط</a><br />
<br />
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ۔۔۔<br />
ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ أَبَاكِ ، وَأَخَاكِ ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ ، وَيَقُولُ قَائِلٌ أَنَا أَوْلَى ، وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ<br />
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضِ وفات میں فرمایا کہ اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی عبدالرحمٰن کو میرے پاس بلاؤ ، تاکہ میں انہیں تحریر لکھوا دوں ، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ (خلافت کی) تمنا کرنے والے تمنا کریں گے اور کہنے والا کہے گا کہ میرے سوا اور کوئی نہیں۔ جبکہ اللہ اور تمام مومنین ابوبکر کے علاوہ سب کا انکار کرتے ہیں۔<br />
<span style="color: purple;">صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ</span> : <a href="http://www.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=158&pid=41720&hid=4406">آن لائن ربط</a><br />
<br />
علم و یقین اور ایمان و تقویٰ کی یہ عظیم شخصیت خلافتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے عظیم منصب پر سوا دو سال تک براجمان رہی اور اسلام کے لیے آپ رضی اللہ عنہ نے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئے کہ جو کبھی فراموش نہ کئے جا سکیں گے۔<br />
63 برس کی عمر میں جمادی الاول سن 13 ھجری کے اواخر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہو کر دائمی رفاقت کے لیے جنت میں پہنچ گئے۔باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-59218306734838123812010-08-05T20:50:00.003+03:002010-08-22T10:43:14.049+03:00اسلامی تاریخ کا دورِ صحابہاگر ہم اپنی تاریخ کو عمیق نظر سے دیکھیں تو ہمیں اس کا وہ دَور یا عرصہ روشن ترین اور دودھ سے زیادہ سفید نظر آئے گا ، جس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے زندگی بسر کی۔<br />
اور یہی وہ پاکیزہ گروہ تھا جس نے اپنے شانوں پر اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ۔۔۔ <a name='more'></a><br />
اور یہی مقدس ہستیاں ، انبیائے کرام کے بعد اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں!<br />
<br />
فرقوں کی بہتات کی بنا پر مسلمان قوم کی تاریخ بےپناہ تحریف کا شکار رہی کیونکہ ان میں ہر فرقہ اس کوشش میں مصروف رہا کہ ۔۔۔<br />
وہ اپنوں کی شان بڑھائے اور دوسروں کو گرائے۔<br />
اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو گئے !<br />
<br />
مسلمان قوم میں سے چند لوگوں نے چوتھے خلیفۂ راشد ، داماد اور عمِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے اس قدر غلو آمیز محبت کی کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کا معاملہ مکمل طور پر الجھا کر رکھ دیا۔<br />
اور آپ (رضی اللہ عنہ) کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیں جو اصل واقعات اور تاریخ سے میل نہیں رکھتیں ۔۔۔۔ اور پھر اسی "کھیل" کے دوران دوسرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی شان گھٹانے کی ناکام کوششیں کیں اور انہیں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حق غصب کرنے ، ان پر ظلم کرنے ونیز خود اپنے حق میں برا بیج بونے والوں کے روپ میں پیش کیا ، بلکہ ۔۔۔۔ اس محبت نما دشمنی میں اولادِ علی (رضی اللہ عنہ) کو منصوص علیہم ائمہ قرار دیا اور انہیں انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی طرح معصوم قرار دینے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان سے بھی بڑھا دیا۔<br />
<br />
صحیح تحقیق کے مطابق تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور یہی چیز اس بات کی دلیل ہے کہ ۔۔۔<br />
ہمیں کبار صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے احوال اور اُن (رضی اللہ عنہم) کی صحیح روایات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ :<br />
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کچھ صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ بعض حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں۔<br />
بلکہ اس کے برعکس ۔۔۔۔<br />
تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔<br />
<br />
** حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) سے بیاہ دی تھی۔<br />
{بحوالہ: الکافی ، ج:5 ، ص:346}<br />
** حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس (رضی اللہ عنہا) سے شادی کر لی تھی (یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے)۔<br />
** امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹوں کے نام<br />
ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم)<br />
کے ناموں پر رکھے۔<br />
{بحوالہ: معرفة الصحابة ، ج:1 ، ص:309}<br />
** حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا۔<br />
{بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279}<br />
** حضرت جعفر صادق بن محمد ہاشمی کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق نے دو مرتبہ جنا ہے۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق کی دختر تھیں)۔<br />
{بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255}<br />
<br />
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دورِ امارت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام کی مدح فرمائی تھی۔<br />
<br />
دوسری طرف ایک اور گروہ ہے جو آل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام کے جو فضائل و مناقب ہیں ، وہ فضائل و مناقب تک انہیں دینا نہیں چاہتے۔<br />
<br />
ان دونوں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے۔<br />
یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ ۔۔۔۔<br />
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے۔<br />
اور<br />
اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے۔<br />
<br />
اہل بیت خود بھی صحابہ کرام کے عمومی گروہ میں شامل ہیں۔<br />
اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔۔۔۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا۔<br />
<br />
اصحابِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب پر والا وشیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے متعلق معصومیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں اور انبیاء کرام کے سوا کسی کو معصوم نہیں بنایا۔<br />
بےشک اس مقدس گروہ کے چند صحابہ کرام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور وفات کے بعد چند تسامحات بھی ہوئے ۔۔۔<br />
لیکن ان تسامحات کی حیثیت ان کی نیکیوں کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے پہاڑوں کے مقابلے میں ریت کے چند ذرات اور سیلاب کے مقابلے میں بارش کے چند قطرات !!<br />
<br />
لہذا ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ صحابہ کرام کے احسانات کا حق ادا کرتے ہوئے ان کے فضائل و مناقب کا ذکر کریں اور ان کے تسامحات کے چٹخارہ دار بیانات سے باز رہیں۔<br />
<br />
اللہ تعالیٰ ہمیں حق و صواب کی راہ کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین !<br />
<br />
<br />
=============<br />
اقتباسات بحوالہ :<br />
آئینۂ ایامِ تاریخ ، عثمان بن محمد ناصری / عبدالجبار سلفیباذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-22127323220103640112010-08-05T08:30:00.001+03:002010-08-22T10:41:42.367+03:00صحابۂ کرام کے حقوقعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فلو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه .<br />
( صحيح البخاري : 3673 ، الفضائل / صحيح مسلم : 2541 ، الفضائل )<br />
<a name='more'></a>ترجمہ : <br />
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو ، اسلئے کہ اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو انکے ایک مد یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔<br />
<br />
تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو اس میں سب سے اچھا دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی رسالت کیلئے منتخب کرلیا ، پھر جب [ نبیوں کے دلوں کے بعد اور ] بندوں کے دلوں کا جائزہ لیا تو سب سے بہتر دلحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دل کو پایا تو اپنے نبی کے وزیر و ساتھی کے طور پر انکا انتخاب کر لیا جو اسکے دین کی بنیاد پر جہاد کئے ہیں تو یہ مسلمان [ یعنی صحابہ ] جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے ۔ <br />
{ مسند احمد ، ج : 1 ، ص : 379 / شرح السنۃ ، ج : ۱ ص : 214 }<br />
<br />
صحابی کہتے ہیں اس شخص کو جس نے حالت ایمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر اسکا انتقال بھی ہوا ہو ، اہل سنت وجماعت کے یہاں صحابہ کرام کی بڑی اہمیت اور انکے کچھ خاص حقوق ہیں جنکا ادا کرنا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے ، کیونکہ <br />
اوّلا : تو وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں ، <br />
ثانیا :ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ، <br />
ثالثا : وہ لوگ امت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ ہیں ، <br />
رابعا : اللہ تبارک و تعالی نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی ، <br />
خامسا : وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔<br />
<br />
صحابہء کرام کے حقوق :<br />
<br />
[ 1] <br />
محبت : <br />
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ <br />
( سورة المائدة : 55)<br />
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں<br />
<br />
اس آیت میں اہل ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ تبارک وتعالی کا ولی قرار دیا گیا ہے اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہل ایمان صرف صحابہءکرام تھے ۔<br />
<br />
ارشاد نبوی ہے : آیۃ الایمان حب الانصار و آیۃ النفاق بغض الانصار<br />
[ صحیح البخاری و صحیح مسلم عن ابن انس ]<br />
۔۔۔ انصار سے محبت ایمان کی علامت اور انصار سے بغض و نفرت نفاق کی علامت ہے ۔<br />
<br />
[ 2 ] <br />
دعا و استغفار : <br />
وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ <br />
( سورة الحشر : 10 ) <br />
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے<br />
اس لئے اہل سنت و جماعت کے نزدیک " رضی اللہ عنہ " صحابہء کرام کیلئے شعار ہے ۔<br />
<br />
[ 3 ] <br />
صحیح دلیل سے ثابت انکے فضائل کا اقرار : <br />
جیسے عشرہ و مبشرہ ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت عمرو بن عاص وغیرہ کے فضائل میں وارد حدیثیں ۔<br />
<br />
[ 4 ] <br />
انکی عدالت کا اعتراف : <br />
یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پرہیز کرتے تھے تقوی کا التزام کرتے تھے ، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جان بناتے تھے ، اگر ان میں کسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقاضائے بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے: <br />
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُوْلَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ <br />
( سورة الحجرات : 7 ) <br />
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ، اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں ، تو تم مشکل میں پڑ جاو لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے ، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔<br />
<br />
[ 5 ] <br />
انکی تعظیم و توقیر کی جائے : <br />
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : <br />
اکرموا اصحابی فانہم خیارکم<br />
{ النسائی الکبری ، مصنف عبد الرزاق عن عمر } <br />
میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں ۔<br />
<br />
[ 6 ] <br />
انکی عیب جوئی نہ کی جائے اورانہیں برا بھلا نہ کہا جائے : <br />
ارشاد نبوی ہے : <br />
لا تسبوا اصحابی ، لعن اللہ من سب اصحابی ۔ <br />
{ الطبرانی الاوسط عن عائشۃ } <br />
میرے صحابہ کو بر بھلا نہ کہو ، اس شخص پر اللہ تعالی کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے ۔<br />
<br />
[ 7 ] <br />
انکی غلطیوں کو اچھالا نہ جائے اور انکے اختلافات کو حدیث مجالس نہ بنایا جائے :<br />
ارشاد نبوی ہے : <br />
اذا ذکر اصحابی فامسکو<br />
{ الطبرانی الکبیر ، عن ابن مسعود }<br />
جب میرے صحابہ { کے آپسی اختلاف} کا ذکر ہو تو خاموشی اختیار کرو ۔<br />
<br />
[ 8 ] <br />
انکی علمیت اور دینی خدمات کا اعتراف کیا جائے : <br />
کیونکہ انہی لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ دین کو اخذ کیا ہے ۔ <br />
<br />
<br />
بشکریہ : <a href="http://www.islamidawah.com/play.php?catsmktba=225">شیخ ابو کلیم فیضی (مرکز دعوت و ارشاد ، الغاط ، سعودی عرب)</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-6912853387918969674.post-54375965465030610292010-08-04T20:08:00.001+03:002010-08-22T10:41:06.493+03:00عشرہ مبشرہ صحابہ"عشرہ مبشرہ" حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔<br />
<a name='more'></a><br />
عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :<br />
<br />
ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ،<br />
عمر رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ،<br />
عثمان رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہيں ،<br />
علی رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ،<br />
طلحہ رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ،<br />
زبیر رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ،<br />
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ،<br />
سعد (بن ابی وقاص) رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہيں ،<br />
سعید (بن زید) رضی اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ،<br />
ابوعبیدہ رضي اللہ تعالی عنہ جنتی ہیں ۔<br />
<br />
<a href="http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=9&CID=151&SW=4112#SR1">ترمذی ، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : مناقب عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه ، حدیث : 4112</a>باذوقhttp://www.blogger.com/profile/03706399867367776937noreply@blogger.com2