بلاگ مراسلات کو سبسکرائب کریں : || FeedBurner

Thursday, August 19, 2010

حضرت حسن رضی اللہ عنہ

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمد تھی۔
آپ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں۔

سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) کی پیدائش اکثر مورخین کے نزدیک ماہِ رمضان سن 3 ھجری ہے۔
فتح الباری میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : كان مولد الحسن في رمضان سنة ثلاث من الهجرة عند الأكثر
بحوالہ : فتح الباری : آن لائن ربط

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اہل بیت کے عظیم فرد ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بےپناہ محبت تھی۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی :
" اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ " .
اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت فرما۔
صحیح بخاری : آن لائن ربط

اور مزید ایک فرمانِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) یوں ہے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ ، فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ
اے ہمارے پروردگار ! بلاشبہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ، اور جو لوگ اس سے محبت کریں تو بھی ان سے محبت فرما۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط

عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) کو اٹھائے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں :
بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ , لَيْسَ شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ ہیں ، علی سے نہیں۔
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر مسکرا رہے تھے۔
صحیح بخاری : آن لائن ربط

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ
سیدنا حسن بن علی سے زیادہ اور کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں تھا۔
صحیح بخاری : آن لائن ربط

حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے مزاج و افتاد طبع کے اعتبار سے نہایت صلح جو تھے لڑائی جھگڑوں کو طول دینے کے بجائے صلح و مفاہمت کی راہ اختیار کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اسی سبب جنگِ جمل کو ہونے سے روکنے کی انہوں نے کافی کوششیں کیں۔ مگر جب جنگ شروع ہو گئی اور مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونے لگے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اسی صلح جو صاحبزادے سے کہا :
يا بني ليت اباك مات قبل هذا اليوم بعشرين عاماً‏
بیٹے ! کاش تیرا باپ اس دن سے 20 سال قبل مر گیا ہوتا۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
يا ابت قد كنت انهاك عن هذا‏
اباجان ! میں تو آپ کو اس سے منع ہی کرتا رہا۔
بحوالہ : البدائیہ و النہائیہ : آن لائن ربط

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوۂ افروز تھے اور سیدنا حسن بن علی ان کے پہلو میں ہیں۔ کبھی آپ لوگوں کی طرف رخ فرماتے اور کبھی سیدنا حسن کی طرف۔ اور آپ نے فرمایا :
إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔
صحیح بخاری ، کتاب الصلح : آن لائن ربط

چنانچہ تاریخ اسلام کے مستند واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہا نے عین میدانِ جنگ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے عظیم نانا (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عظیم پیشین گوئی کو سچ ثابت کر دکھایا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عظمت کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے جو کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خلافت سے دست بردار ہو گئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہا۔

آپ نے سن 50 ھجری میں انتقال فرمایا۔

:: 0 تبصرے ::

تبصرہ کیجئے

{ تبصرہ کرتے وقت تہذیب و شائستگی کو ملحوظ رکھئے۔ بلاگ مصنف متنازعہ تبصرہ کو حذف کرنے کا اختیار رکھتا ہے }